ترکی نے آج پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ اس نے ترکی میں زیر حراست داعش کے دو قیدیوں کو ان کے متعلقہ ممالک میں واپس بھجوا دیا ہے۔ ان میں سے ایک کا جرمنی اور دوسرے کا تعلق امریکہ سے تھا۔
ترکی کی طرف سے داعش کے زیر حراست افراد کو واپس بھجوانے کا عمل شروع کرنے سے، اس کے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
ترکی کا کہنا ہے کہ داعش کے سینکڑوں جنگجو ترکی میں کے قید خانوں میں ہیں اور اس نے شام کے شمالی علاقوں سے داعش کے مزید 287 جنگجوؤں کو گرفتار کیا ہے۔
ترکی نے یورپی ممالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے ایسے شہریوں کو واپس لینے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ شامل ہو کر مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں گئے تھے۔
دوسری جانب نیٹو اتحادی ممالک اس خدشے کا اظہار کر ہے ہیں کہ ترکی کی طرف سے شام کے شمالی علاقوں میں کردوں پر حملوں کے نتیجے میں داعش کے ان پزاروں جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کے افراد کے فرار ہونے کا خطرہ ہے جو کردوں کی حراست میں ہیں۔
ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ترکی پیر کے روز سے داعش کے زیر حراست جنگجوؤں کو اس کے باوجود ان کے آبائی ملکوں میں بھیجنا شروع کر دے گا کہ متعلقہ ممالک نے بھلے ان کی شہریت منسوخ ہی کیوں نہ کر دی ہو۔
ترکی کی وزارت داخلہ کے ترجمان اسماعیل کٹکلی کا کہنا ہے کہ ایک امریکی اور ایک جرمن شخص کو آج پیر کے روز ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ آئندہ چند روز میں داعش کے مزید 23 جنگجوؤں کو جلاوطن کر دیا جائے گا جن کا تعلق یورپی ممالک سے ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈنمارک کے شہری کو بھی آج اپنے ملک واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بدر کیے جانے والوں میں آئر لینڈ کے 2، جرمنی کے 9 اور فرانس کے 11 شہری شامل ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ شام میں گرفتار کیے گئے داعش کے جنگجوؤں کی شہریت کی شناخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد متعلقہ ممالک کو مطلع کر دیا گیا ہے۔