ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں مبینہ دہشت گردوں نے اتوار کو وزارتِ داخلہ کی عمارت کے سامنے خود کش دھماکہ کیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ حملہ آوروں میں سےایک دھماکے میں ہلاک ہوا جب کہ دوسرا سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے مارا گیا۔
انقرہ میں دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اتوار کو ہی قریب واقع پارلیمنٹ کی عمارت میں چند گھنٹوں کے بعد پارلیمان کا نیا اجلاس شروع ہونے والا تھا۔
دھماکے کی آواز پارلیمنٹ اور وزارتوں کی عمارت میں بھی سنی گئی جب کہ مقامی نشریاتی اداروں نے قریبی سڑک پر بکھرے ملبے کی فوٹیجز بھی دکھائی ہیں۔
دھماکے کے باوجود ترکیہ کا اتوار کا پارلیمانی اجلاس منعقد ہوا ۔ تاہم اس علاقے میں سکیوریٹی کے انتظامات سخت کیے گئے تھے۔
ترکیہ کے صدر طیب ایردوان نے خود کش حملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد امن وامان کو خراب کرنا چاہتے ہیں کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
انہوں نے پارلیمنٹ کےاجلاس کا اپنی تقریر سے آغاز کیا جس میں انہوں نے یورپی یونین کو ترکیہ کو بلاک کا رکن بنانے میں تاخیر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ ترکیہ کو یورپی یونین سے کوئی امید نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے "اے ایف پی" کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ ان کے ملک نے بلاک میں شمولیت کی تمام شرائط پوری کی ہیں اور اب مزید ایسے مطالبات کو برداشت نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ ترکیہ کی پارلیمان کا یہ اجلاس اس لیے اہم ہے کہ سوئیڈن کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے لیے ترک پارلیمانی ووٹ لازم ہے۔
ترک میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وزارتِ داخلہ کی عمارت کے سامنے دھماکے کے بعد حکام نے پارلیمنٹ کی بھی تلاشی لینے کا حکم دیا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو ایک ذریعے نے بتایا کہ پارلیمنٹ کا داخلی راستہ کھلا رکھا گیا تھا۔ لیکن احتیاطی تدبیر کے تحت کسی بھی گاڑی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
وزیرِ داخلہ علی یرلیکایا نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے ہوا جس میں دو پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دو دہشت گرد ایک کمرشل گاڑی میں وزارتِ داخلہ کی عمارت کے سامنے پہنچے تھے۔
ان کے بقول دونوں حملہ آور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے داخلی دروازے کے سامنے آئے اور بم دھماکہ کیا۔
حکام کا کہنا تھا کہ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑایا جب کہ دوسرا حملہ آور سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بنا۔
وزیرِ داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جدو جہد جاری رہے گی۔
حکام نے ابھی تک کسی مخصوص عسکریت پسند گروپ کو اس حملے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی کسی نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ ایک سال قبل ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں پیدل چلنے والوں کی ایک مصروف گلی میں دھماکے کے ایک برس بعد ہوا ہے۔ استنبول میں دھماکے میں چھ افراد ہلاک جب کہ 81 زخمی ہوئے تھے۔
اس وقت ترکیہ کے حکام نے استنبول حملے کا الزام کرد عسکریت پسندوں پر لگایا تھا۔
اتوار کو ہونے والے دھماکے کی انقرہ کے چیف پراسیکیوٹر نے دہشت گردی کے واقعے کے طور پر تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
خیال رہے کہ 2015 اور 2016 کے دوران کرد عسکریت پسندوں، داعش اور دیگر مسلح گروہوں نے ترکیہ کے متعدد بڑے شہروں میں کئی حملے کیے جب کہ کئی دہشت گردی کی کارروائیوں کے الزامات ان تنظیموں پر عائد کیے گئے۔
یہ بھی جانیے
'سوئیڈن کی نیٹورکنیت کے لیے ترکیہ کی رضامندی نے سربراہی اجلاس کو تاریخی بنا دیا'ترکیہ نے کن شرائط پر سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کی حمایت پر رضا مندی ظاہر کی؟ترکیہ سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے پر رضامند ہو گیا، نیٹو سیکریٹری جنرلترکیہ ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے عوض سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کرے: صدر بائیڈنگزشتہ سات سال میں ترکیہ کے دارالحکومت میں کوئی دھماکہ نہیں ہوا تھا یہ 2016 کے بعد انقرہ میں پہلا دھماکہ تھا۔
مارچ 2016 میں انقرہ میں اس وقت 37 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب ایک ہجوم سے بھرے مرکزی ٹرانسپورٹ سینٹر میں بم سے بھری کار میں دھماکہ ہوا تھا۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔