ترکی نے کہا ہے کہ شام کو نسلی بنیاد پر تقسیم سے بچانے کے لیے وہ اگلے چھ ماہ تک شام میں زیادہ متحرک کردار ادا کرے گا۔ اِس بات کا اعلان وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ہفتے کے روز کیا۔
اُنھوں نے استنبول میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہم یہ کہتے ہیں کہ خونزیری بند ہونی چاہیئے۔ نوزائدہ، کمسن، بے گناہ افرادکو ہلاک نہیں ہونا چاہئیے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’یہی وجہ ہے کہ ترکی زیادہ متحرک ہوگا تاکہ یہ کوشش کی جاسکے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران یہ خطرہ ٹل جائے‘‘۔
یلدرم نے مزید کہا کہ شام کے مستقبل میں شامی صدر بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہے، لیکن عبوری دور کے دوران اُن کے ساتھ مذاکرات ضروری ہوں گے، چونکہ ’’آپ چاہیں نہ چاہیں، وہ اِس معاملے میں ایک کردار ہیں‘‘۔
کُرد باغی گروہ کے لیے دولت اسلامیہ کا نام استعمال کرتے ہوئے، اُن کا کہنا تھا کہ ’’عبوری دور میں (اُن کے ساتھ) بیٹھ کر بات کرنی ہوگی۔ عبوری دور کے لیے سہولت فراہم کی جائے۔ تاہم، ہم سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں شام میں ’پی کے کے‘، داعش یا اسد نہیں ہونے چاہیئں‘‘۔
یلدرم نے پانچ برس سے جاری شام کی لڑائی کے نتیجے میں نسلی بنیادوں پر تقسیم کے جذبات کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا، جہاں کُرد گروہوں نے اپنے علیحدہ خطے قائم کر رکھے ہیں جو کبھی کبھار شام کی اکثریتی عرب آبادی کے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ جمعرات کے روز شام کی فضائی افواج نے پہلی بار حسکہ میں کُرد باغیوں کے خلاف بمباری کی، جو شہر شمال مشرق میں واقع ہے جہاں کُرد اور شام کی سرکاری افواج داعش کے شدت پسندوں کے ایکساتھ لڑتے رہے ہیں۔ سنہ 2011ء جب سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا ہے، یہ فضائی حملے حکومت شام اور کرد افواج کے درمیان سنگین محاذ آرائی خیال کی جاتی ہے۔
ترکی کُرد ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے شدت پسندوں کے ساتھ صف آرا ہے، جب کہ سرحد پار کُردوں کے طاقت ور ہونے پر اُسے تشویش لاحق ہے، اور وہ آزادی یا خودمختاری کی کوششوں کے خلاف ہے۔
اِس کے باجود، یلدرم نے کہا ہے کہ ترکی شام کے بارے میں مایوس نہیں اور یہ کہ وہ پُراعتماد ہیں کہ ایران، خلیجی عرب ریاستیں، روس اور امریکہ مل کر اس کا حل نکال سکتے ہیں۔
یلدرم نے اِن افواہوں کو مسترد کیا کہ روس کو انسرلک کا فوجی اڈا استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی، جسے اِس وقت امریکی اتحاد داعش کے شدت پسندوں کے خلاف استعمال کرتا ہے۔