ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ہفتہ کو ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں شادی کی تقریب میں خودکش بم دھماکا ایک بچے نے کیا۔
اس خودکش حملے میں 51 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے، جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
صدر رجب طیب اردوان نے اتوار کو بتایا کہ ابتدائی شواہد سے یہ معلوم ہوا ہے کہ خودکش بمبار کی عمر 12 سے 14 سال کے درمیان تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ بظاہر ’داعش‘ نے شامی سرحد کے قریب غازی عنتب میں لوگوں کو اس حملے میں نشانہ بنایا۔
اس سے قبل ایک تحریری بیان میں صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ دہشت گرد گروہ داعش، کردستان ورکرز پارٹی ’پی کے کے‘ کے جنگجوؤں اور امریکہ میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن میں کوئی فرق نہیں۔
ترکی کا الزام ہے کہ گزشتہ ماہ ملک میں بغاوت کی ناکام کوشش میں فتح اللہ گولن ملوث تھے۔ تاہم فتح اللہ گولن ایسے الزامات کی سختی سے تردید کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ غازی عنتب میں خودکش بم حملہ ایسے وقت کیا گیا جب لوگ شادی کی خوشیاں منا رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شام کی سرحد کے قریب غازی عنتب کے علاقے میں اس سے قبل بھی دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔
غازی عنتاب میں کردوں کی اکثریت آباد ہے اور یہ شام کی سرحد سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شادی میں کردوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی اس لیے ایسے خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ اس دھماکے میں ’داعش‘ ملوث ہو سکتی ہے۔
کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا ہے کہ شادی کی تقریب میں اُس کے اراکین شریک تھے جب کہ وہاں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
ترکی کو حالیہ مہینوں میں تواتر سے دہشت گرد حملوں کا سامنا رہا۔
رواں ہفتے ہی ترکی میں دو کار بم دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ ترک حکام نے ان دھماکوں کا الزام کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے باغیوں پر عائد کیا تھا۔
’پی کے کے‘ ترک پولیس اور فوج پر اس سے قبل بھی حملے کرتی رہی ہے، ان میں سے زیادہ تر حملے ملک کے جنوب مشرق میں کردش علاقوں میں ہوئے۔