شام کے باغیوں نے، جنہیں ترک فوج کی مدد حاصل ہے، ہفتے کے روز ملک کے شمال میں واقع ایک قصبے دابق پر قبضے لیے توپ خانے سے گولہ باری کرتے ہوئے اس کے مضافات کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے۔
دابق پر قابض اسلامک اسٹیٹ کے جہادی جنگجوؤں کے لیے اس قصبے کی جہاں حربی لحاظ سے اہمیت ہے وہاں یہ ان کے لیے مذہی اعتبار سے بھی ایک مقدس مقام ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے لندن میں مقیم شامیوں کے گروپ نے بتایا ہے کہ قصبے کو اپنے کنڑول سے نکلنے سے بچانے کے لیے اسلامک اسٹیٹ نے اپنے مضبوط گڑھ رقہ سے فوری طور پر مزید ایک ہزار سے زیادہ جنگجو دابق بھیج دیے ہیں، جن میں سے زیادہ تر شامی قومیت سے تعلق نہیں رکھتے۔
باغی کمانڈروں نے بتایا ہے کہ حملہ آور دستوں نے ہفتے کے روز قصبے کے قریبی سٹرٹیجک اہمیت کے علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
یہ قصبہ ترک سرحد سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
شمالی عراق کے شہر دابق کی اسلامک اسٹیٹ کے لیے ایک علامتی حیثیت ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کی حیثیت مذہبی ہوگی۔ جہادی گروپ نے اگست 2014 میں دابق پر قبضے کے بعد اپنے آن لائن رسالے کا نام اس کے نام اس قصبے کے نام پر رکھا تھا۔
اسلامک اسٹیٹ حالیہ ہفتوں میں دابق کے گرد باروی سرنگیں اور دھما کہ خیر مواد نصب کر کےاور اس کے تحفظ کے لیے تجربہ کار جنگجو بھیج کر اسے ایک قلعے کی طرح مضبوط بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے برطانیہ میں موجود گروپ نے ہفتے کے روز کہا کہ شام کی حکومت مخالف فورسز جنہیں ترک فوج کی مدد حاصل ہے، دابق سے محض دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں اورتین اطراف سے پیش قدمی کر رہی ہیں۔
ترکی 24 اگست کو شمالی شام میں اپنے ٹینک داخل کرنے کے بعد اس جنگ میں ایک زیادہ فعال کھلاڑی بن گیا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اروان نے ہفتے کے روز کہا کہ ترک فورسز شمالی عراق میں پانچ ہزار مربع کلو میٹر کے علاقے کو ' دہشت گردی سے پاک زون ' بنائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی 30 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کی اپنے گھروں کو واپسی دیکھنا چاہتا ہے جو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ کر ترکی آگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے لیے جگہ بنانی چاہیے تاکہ وہ اپنی سرزمین پر واپس جاسکیں ۔ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ وہ وہاں حفاظت سے رہ سکیں۔