ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان پاکستان کے دو روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ جہاں وہ جمعے کو پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔
ترک صدر کو دورے کی اس دورے کی دعوت پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے دی تھی۔
جمعرات کو اسلام آباد پہنچنے پر وزیرِ اعظم عمران خان نے دیگر اعلٰی حکام کے ہمراہ نور خان ایئر بیس پر ترک صدر کا استقبال کیا۔ صدر ایردوان کے ہمراہ ترکی کی خاتونِ اول امینہ ایردوان بھی پاکستان آئی ہیں۔
دورہ پاکستان کے دوران ترک صدر اپنے پاکستانی ہم منصب عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔
ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی ترک صدر کے ہمراہ ہے۔ وفد میں ترکی کے وزرا، اعلٰی سرکاری عہدے دار اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ترک صدر کی موجودگی کے دوران پاکستان ترکی اسٹرٹیجک تعاون کونسل کا اجلاس بھی ہو گا جس کی صدارت ترک صدر اور وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔
ترک صدر کے دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد اور انقرہ کے درمیان مفاہمت کی کئی یاد داشتوں اور معاہدوں کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ترکی کو پاکستان چین راہداری منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگرچہ اس دورے کا بظاہر محور اسلامی دنیا کے دو اہم ملکوں کے درمیان تجارتی، دفاعی اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کا فروغ ہے۔ لیکن تجزیہ کار گزشتہ سال دسمبر میں کوالالمپور سمٹ کے بعد اس دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ کوالالمپور سمٹ میں پاکستان نے عین وقت پر شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر ترک صدر کا ایک مبینہ بیان سامنے آیا تھا جس میں اُنہوں نے پاکستان کے انکار کو سعودی عرب کے دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔
ترک صدر نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کی تو وہاں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو واپس بھجوا دیا جائے گا۔
البتہ پاکستان میں سعودی سفارت خانے نے ترک صدر کے مبینہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی حکومت نے پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ صدر ایردوان کے دورے سے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے معاملے پر پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دُور کرنے میں مدد ملے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ کوالالمپور سمٹ کے بعد عمران خان نے حال ہی میں ملائیشیا کا کامیاب دورہ کیا اور اب ترکی کے صدر بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ ان رابطوں سے ترکی، پاکستان اور ملائیشیا کے مابین تعلقات کو فروغ ملے گا۔
SEE ALSO: پاکستان کو مجبور کیا اور نہ ہی دھمکی دی: سعودی عربترکی اور ملائیشیا نے بھارت کی جانب سے گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی بھی کھل کر مذمت کی تھی۔
گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں صدر ایردوان اور ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد نے بھارتی اقدام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
بھارت نے ترکی اور ملائیشیا کے اس مؤقف پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے حالیہ دورہ ملائیشیا میں کوالالمپور سمٹ میں نہ آنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے کچھ دوست ممالک کو اس سمٹ کے انعقاد پر تحفظات تھے جو اُن کے بقول درست نہیں تھے۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان اور ترکی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ افغان امن عمل کے حوالے سے بھی اہم ممالک سمجھے جاتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ بھی اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔
ہما بقائی کے بقول پاکستان معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ملک میں سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کا خواہاں ہے اور اس ضمن میں ترکی کا سیاحتی ماڈل پاکستان کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔
ہما بقائی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم کے دورۂ ملائیشیا اور اب ترک صدر کے دورۂ پاکستان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ پاکستان آزاد خارجہ پالیسی وضع کرنے کے لیے کوشاں ہے۔