ترک ٹینک اور خصوصی افواج بدھ کو شام میں داخل ہوئیں، جس فوجی کارروائی کا مقصد سرحدی علاقے سے داعش کے شدت پسندوں اور شامی کُردوں کا صفایا کرنا ہے۔
اس سرحد پار کارروائی میں شامی مخالفین کے تقریباً 1500 لڑاکے بھی شامل ہیں، جس پانچ برس سے جاری شامی تنازعے کا یہ ترکی کا اہم ترین آپریشن ہے۔
علی الصبح ہونے والے بڑے دہانے والے ہتھیاروں سے مسلح اِس حملے اور جرابلس کے گرد داعش کے اہداف پر امریکی فضائی بمباری کے کچھ ہی گھنٹے بعد، ترکی کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے نے اطلاع دی ہے کہ باغیوں نے داعش کے زیر قبضہ کاکلیج کے گاؤں پر قبضہ کیا ہے۔ ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا ہے کہ اِس کارروائی میں امریکی فوج ترک افواج کو فضائی، انٹیلی جنس اور مشیروں کی صورت میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
اہل کار نے داعش کا نام لے کر کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ داعش کو سرحد سے ہٹانے میں ترکوں کو مدد فراہم کی جائے‘‘۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ یہ کارروائی ترکی میں حملوں کے ایک سلسلے کے جواب میں کی گئی ہے، جس میں خودکش بم حملے شامل ہیں جیسا کہ اس اختتام ہفتہ سرحد کے قریب شادی کی کُرد تقریب میں ہوئی، جس میں 54 افراد ہلاک ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہدف بنائے جانے والے ’’دہشت گرد‘‘ گروپ، داعش کے جہادیوں اور امریکی حمایت یافتہ شامی کُرد میلیشا گروہوں سے واسطہ رکھنے والے گروپوں کے خلاف ہے، جن پر ترکی نے بندش عائد کر رکھی ہے، جس ضمن میں باغیوں کی جانب سے لاحق خدشات کا خاتمہ لایا جائے گا۔
ترکی کی طرف سے یہ آپریشن ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکی نائب صدر جو بائیڈن مختصر دورے پر انقرہ پہنچے، جہاں ان کی ہونے والی بات چیت میں شام کی صورت حال کا معاملہ بھی شامل ہو گا۔
ترکی کے وزیر داخلہ افکن الا نے کہا کہ یہ آپریشن ترکی کی سلامتی کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انقرہ "ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر یہ نہیں دیکھ سکتا" انہوں نے مزید کہا کہ" یہ ترکی کا قانونی حق ہے اور یہ اس کے دائرہ اختیار میں ہے" کہ وہ کارروائی کرے۔
افکن نے یہ بھی کہا کہ بدھ کی کارروائی کا مقصد اعتدال پسند شامی حزب مخالف کی مدد کرنا ہے اور یہ آپریشن امریکہ کی زیر قیادت اتحادی فورسز کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس' کا بھی کہنا ہے کہ ترکی کی فوج کے زمینی دستے شام میں داخل ہو گئے ہیں۔ شام کی جنگ کی صورت حال پر نظر رکھنے والے گروپ کا کہنا ہے کہ ترکی کے ٹینک اور بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے والی گاڑیاں سرحد پار کر کے شام میں داخل ہوئی اور وہ بدھ کی صبح کو جرابلس شہر کی طرف رواں دواں تھیں۔
ترکی کی حکومت کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقے کو ایک "خصوصی سکیورٹی زون " قرار دے دیا جب کہ سلامتی کے تحفظات اور داعش کے خطرے کاحوالے دیتے ہوئے صحافیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ یہاں آنے کی کوشش نا کریں۔
بدھ کو ہونی والی پیش رفت سے نیٹو کے رکن ترکی کو امریکہ کے حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے ساتھ تصادم کی راہ پر لے آئی ہے۔ شام میں برسر پیکار کرد جنگجو شدت پسند گروپ داعش کے خلاف ایک موثر فورس ہے۔
شامی شہر جرابلس دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ہے یہ ایک اہم قصبہ ہے جہاں داعش کا کنٹرول ہے اور یہ شمالی شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو جدا کرتا ہے۔
جرابلس منبج شہر سے 33 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جسے رواں ماہ ان فورسز نے داعش سے آزاد کروایا جن کی قیادت کرد جنگجوؤں کے پاس تھی۔
حالیہ دنوں میں ترکی نے شام کے ساتھ اپنی سرحد پر سکیورٹی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔
ترکی نے ملک کے جنوب میں گزشتہ ہفتے ایک شادی کی تقریب پر ہوئے خود کش دھماکے کے بعد داعش کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سرحدی علاقوں سے اس عسکریت پسند گروپ کے ٹھکانوں کو ختم کر دے گا۔
ترکی نے اس خود کش حملے کا ذمہ دار داعش کو ٹھہرایا تھا۔