ترک وزیر خارجہ میوت چاوش اوگلو نے پیر کے روز کہا ہے کہ اُن کا ملک شام کے ساتھ ترکی سے ملنے والی سرحد پر داعش کے شدت پسندوں کا ’’مکمل طور پر صفایا‘‘ کرنا چاہتا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات اِس تناظر میں کی ہے جب ایک کُرد شادی میں ایک خودکش بم حملہ کیا گیا، جِس میں کم از کم 54 افراد ہلاک ہوئے۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے اطلاع دی ہے کہ باغی لڑاکے ترکی میں اکٹھے ہوئے، تاکہ داعش کے زیر قبضہ جارابلس کے شامی قصبے میں کارروائی کی جائے گی۔
ترک حکام حملہ آور کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے لیے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ اُن کی عمر 12 سے 14 برس ہے۔ اُنھوں نے بم حملے کا الزام داعش کے دہشت گردوں پر لگایا ہے۔ اہل کاروں نے کہا ہے کہ اُنھیں حملہ آور کی جنس یا شہریت کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ گزنتپ حملے میں ہلاک شدگان افراد کی نصف سے زیادہ تعداد 18 سے کم عمر کے جوانوں کی تھی۔
کُردوں کی حامی ’پیپلز ڈیموکریٹس پارٹی‘ نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام کے تمام لوگ کُرد تھے۔
گزنتپ میں ہونے والا حملہ ایسے وقت ہوا جب ترکی میں ایک ماہ قبل بپھرے ہوئے فوجی عہدے داروں نے اردوان کی حکومت بغاوت کی ایک کوشش میں بچ گئی تھی، جس کا ترک سربراہ نے امریکہ میں مقیم عالم دین فتح اللہ گولن پر الزام لگایا تھا۔
اِس سے قبل ایک تحریری بیان میں، اردوان نے کہا ہے کہ داعش، بندش لگائی گئی ’کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)‘ اور گولن کے پیروکاروں میں ’’کوئی فرق نہیں‘‘۔
بقول اُن کے ’’اُن کے لیے جو ہمارے ملک اور ہماری قوم پر حملہ کر رہے ہیں، صرف ایک ہی پیغام ہے، وہ یہ کہ تم کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔
وائٹ ہاؤس نے گزنتپ میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس وحشیانہ حرکت میں بدخوئی سے اور بزدلانہ طور پر شادی کی تقریب کو نشانہ بنایا گیا‘‘۔
اتوار کے دِن جاری ہونے والے اِس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ نائب صدر جو بائیڈن بدھ کو ترکی کا دورہ کریں گے تاکہ ’’دہشت گردی کی لعنت‘‘ کے خلاف مل کر کام کرنے کا امریکی عزم کا اعادہ کیا۔
عینی شاہدین نے کہا ہے کہ یہ دھماکہ اس سال ترکی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے سلسلے کی مہلک ترین دہشت گری تھی، ایک گلی میں جہاں لوگ جمع تھے، رقص کر رہے تھے اور شادی کی خوشی منا رہے تھے۔