سماجی میڈیا پر گستاخانہ مواد روکنے کے لیے 4 ستمبر تک مہلت

sacrilegious

سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایات بھی دی تھیں کہ وہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں توہین مذہب اور پورنوگرافی سے متعلق شقیں شامل کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر روکنے کے لئے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور پاکستان کی وزارتِ قانون کو 4 ستمبر تک مہلت دے دی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے واضح کیا کہ آئندہ سماعت تک عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو سیکرٹری قانون کو توہین عدالت نوٹس جاری کریں گے۔

دورانِ سماعت جسٹس شوکت صدیقی نے ایف آئی اے اور وزارت قانون کے حکام پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر حکام کو خط کیوں نہیں لکھا گیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے کی دلچسپی صرف پیسے کی لین دین میں ہے، سپریم کورٹ نے حکم دیا تو نوکری بچانے کے لئے فوری جعلی اکاوٴنٹس ٹریس کر لیے، اس کیس میں ایف آئی اے کا کردار روایتی سا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے واضح کیا کہ اگر آئندہ سماعت تک عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو سیکرٹری قانون کو توہین عدالت نوٹس جاری کریں گے۔ عدالت نے ٹویٹر سے گستاخانہ مواد ہٹانے کے لئے 4 ستمبر کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے عندیہ دیا تھا کہ اگر ایک ہفتے میں گستاخانہ نہ ہٹایا گیا تو پاکستان میں ٹوئٹر کو بند کردیں گے۔

گزشتہ سال سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ توہین آمیز مواد روکنے اور کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، 15 تفتیشی افسران اور 12 ہزار شکایات ہیں جبکہ مناسب سہولیات کے فقدان کے باوجود کام جاری ہے۔

مبینہ گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمات کے اندراج، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور مشتبہ افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا تھا جبکہ سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

عدالت نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایات بھی دی تھیں کہ وہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں توہین مذہب اور پورنوگرافی سے متعلق شقیں شامل کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقننہ سے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کی بھی سفارش کی تھی تاکہ گستاخی کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی گستاخی کرنے والے کے برابر سزا دی جاسکے۔