|
ایران کے صدارتی انتخابات سے سخت موقف کے حامل دو امیدوار الگ ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے اپنی علیحدگی کا اعلان ووٹنگ سے ایک روز قبل کیا۔
ایران کے صدارتی انتخابات ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جبکہ ایک جانب تو غزہ کے مسئلے پر اسرائیل کے ساتھ اسکی کشیدیگیاں بڑھ رہی ہیں، دوسری جانب تہران کے جوہری عزائم کے حوالے سے مغرب کادباؤ ہے اور پھر اندرون ملک سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور پر بڑھتی ہوئی مایوسی ہے۔
ان حالات میں اس دوڑ سے جمعرات کے روز ، سخت موقف رکھنے والے دو امیدوار الگ ہو گئے۔ اپنی علیحدگی کا اعلان انہوں نے ووٹنگ سے ایک روز قبل کیا۔ یہ امیدوار امیر حسین غازی زادے ہاشمی اور تہران کے مئیر علی رضا ذکانی ہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ہاشمی نے مقابلے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے دوسرے امیدواروں سے بھی ایسا ہی کرنے کے لئے کہا تاکہ انقلابی موقف کو مضبوط بنایا جا سکے۔
SEE ALSO: ایران کے صدارتی انتخابات؛ خامنہ ای کی ووٹرز سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیلہاشمی، رئیسی کے نائب صدر اور شہداء اور سابقہ فوجیوں کے امور کی فاونڈیشن کے لیڈر ہیں۔ اور وہ دو ہزار اکیس کے انتخاب میں حصہ بھی لے چکے ہیں۔ جس میں وہ ناکام رہے۔
جبکہ تہران کے مئیر علی رضاذکانی دو ہزار اکیس کے انتخاب سے بھی دستبردار ہو گئے تھے۔
ذکانی کا کہنا تھا کہ انکے فیصلے کا مقصد ایک ایسی حکومت کے قیام کو روکنا ہے جو سابق صدر حسن روحانی سے وابستگی رکھتی ہو۔ وہ بالواسطہ اصلاح پسند امیدوار مسعود پزیشکیان کو ہدف بنا رہے تھے۔
پزیشکیان کو سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی حمایت حاصل ہے جو دو ہزار پندرہ کے جوہری مذاکرات میں اپنے کردار کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ یہ امیدوار ایسے میں اصلاح پسند موقف کی نمائیندگی کرتے ہیں جبکہ سخت موقف رکھنے والے امیدواروں کا غلبہ ہے۔
ایران کے صدارتی انتخاب میں آخری لمحوں میں ، خاص طور سے ووٹنگ سے چوبیس گھنٹے قبل جب انتخابی مہموں کو رک جانا چاہئیے ، امیدواروں کی دستبرداری ایک عام بات ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کے خلاف جنگ؛ بڑی تعداد میں ایران نواز جنگجوؤں کی حزب اللہ میں شمولیت کا اندیشہجمعے کے روز کا انتخاب، ہیلی کاپٹر کے حادثے میں صدر رئیسی کے انتقال کے بعد ہو رہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کے معاملے پر بھی اثر ڈالے گا۔
اسٹوڈینٹس پولنگ سینٹر کے بائیس اور تئیس کے عوامی جائیزے کے مطابق ہاشمی اور ذکانی کو بالترتیب ایک اعشاریہ سات فیصد اور دو فیصد ووٹ ملنے کے امکانات تھے۔
ان امیدواروں کی دستبرداری کے بعد ، میدان میں چار امیدوار رہ گئے ہیں۔ ذکانی نے سخت موقف رکھنے والے سرکردہ امیدواروں سعید جلیلی اور محمد باقر قالیباف سے اعتدال پسند امیدوار پزشکیان کے خلاف متحد ہونے کے لئے کہا ہے۔
خامنہ ای اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جو امیدوار انکے سخت گیر نظریات سے اتفاق کرتے ہیں، انتخابی عمل میں غالب رہیں ۔ جو ایران کے آئیندہ سپریم لیڈر کے تعین کےلئے انتہائی اہم ہونگے۔
پزیشکیان کو جو ایک سابق وزیر صحت ہیں، مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرنے والے اس اصلاح پسند دھڑے کی حمایت حاصل ہے جسے ایک طرف دھکیل دیا گیا ہے۔
تاہم ایران کے اندر اور باہر حکومت کے مخالفین کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیلوں کے سبب انکے انتخابی امکانات کے بارے میں غیر یقینی صورت حال برقرار ہے۔
اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے پی اور رائیٹرز سے لیا گیا ہے۔