حماس تحریک کی جانب سےہفتے کے روز اسرائیل غزہ سرحد پر منعقد سالانہ احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، جس میں زیادہ تعداد نوجوان فلسطینیوں کی تھی۔ ریت کے طوفان کی وجہ سے، ریلی میں لوگوں کی تعداد توقع سے کم تھی۔
حماس کے زیر کنٹرول غزہ کے علاقےاور اسرائیل کے درمیان سرحد پر درجنوں ایمبولنس آتی جاتی رہیں، تاکہ ہفتے کے روز ہونے والے مظاہرے کے متاثرین کو امداد پہنچائی جا سکے۔ عرب ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی ہے کہ بندوق کی گولیاں لگنے سے تین نوجوان ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔
عرب نیوز چینلز پر براہ راست وڈیو نشریات میں سرحد کے ساتھ باڑ کے قریب نوجوان افراد کی ٹولیاں جمع تھیں، ایسے میں ریت کے طوفان نے علاقے کو گھیر لیا۔
عرب میڈیا نے خبر دی ہے کہ حماس سے تعلق رکھنے والے کئی ہزار سیکورٹی اہلکار علاقے میں تعینات تھے۔
غزہ میں حماس کی سرپرستی میں کام کرنے والے ایک نشریاتی ادارے نے گروپ کے رہنما، اسماعیل ہنیہ کا پیغام نشر کیا جس میں اُنھوں نے پہلی برسی کی نسبت سے لوگوں سے احتجاج کرنے پر زور دیا، جب کہ، مبینہ طور پر، اصل کال یہ تھی کہ اسرائیل کے اندر کے علاقوں کی جانب ''واپسی کا مارچ'' کیا جائے۔
ہنیہ نے مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ پچھلے سال کے مظاہرے کی طرح، مبینہ طور پر، سرحدی باڑ اکھاڑ پھینکیں۔
بتایا جاتا ہے کہ مصر کا ایک وفد غزہ میں موجود تھا تاکہ حماس کے رہنمائوں کو قائل کیا جا سکے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کشیدگی سے باز رہیں۔
اسرائیل کے اندر موجود اخباری نمائندوں نے بتایا ہے کہ سرحدی باڑ کے قریب بڑی تعداد میں اسرائیلی ٹینک موجود تھے۔
اس ہفتے کے اوائل میں تشدد کی لہر اُس وقت بھڑک اٹھی تھی جب غزہ کے اندر سے فائر کیا گیا ایک راکیٹ اسرائیل کی ایک رہائشی عمارت کو جا لگا، جس میں چھ افراد زخمی ہوئے۔
راکیٹ حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے علاقے پر متعدد فضائی حملوں کے احکامات جاری کیے۔