کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بلدیہ فیکٹری میں آتش زنی کے مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سیکٹر انچارج رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو 264 بار سزائے موت سنا دی ہے۔
عدالت نے مقدمے میں نامزد دیگر چار ملزموں کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ سزا پانے والوں میں فیکٹری کے مینیجر شاہ رخ، فضل احمد، علی محمد اور ارشد محمود شامل ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عدم شواہد کی بنیاد پر سابق صوبائی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما رؤف صدیقی سمیت دیگر تین ملزمان علی حسن قادری، ادیب خانم اور عبدالستار کو بری کر دیا ہے۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں 11 ستمبر 2012 کو ایک گارمنٹس فیکٹری 'علی انٹر پرائز' میں آگ لگنے سے 264 کے قریب افراد جل کر ہلاک جب کہ 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے اور 11 ستمبر 2012 کو ہونے والے اس سانحہ کے آٹھ سال کے بعد اس کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔
پولیس نے پہلے اسے ایک صنعتی حادثہ قرار دیتے ہوئے فیکٹری مالکان کو ذمّہ دار ٹھیرایا تھا اور ان کے خلاف غفلت، لاپرواہی اور قتلِ خطا کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا۔
SEE ALSO: سندھ حکومت کا بلدیہ فیکٹری سمیت تین 'جے آئی ٹیز' عام کرنے کا اعلانفیکٹری مالکان سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد جان کے خطرے کے پیشِ نظر بیرونِ ملک منتقل ہو گئے تھے اور وہ تاحال بیرونِ ملک مقیم ہیں۔
دوسری جانب اسی کیس کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کی گئی تھی جس نے تفتیش کے بعد انکشاف کیا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 20 کروڑ روپے بھتّہ نہ دیے جانے پر مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے جان بوجھ کر فیکٹری میں آگ لگائی۔
اس الزام کے تحت انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی روشنی میں عدالت میں نیا مقدمہ دائر کیا گیا اور مقدمے میں نامزد رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو گرفتار کیا گیا۔
اسی مقدمے میں ایم کیو ایم کے ایک رہنما رؤف صدیقی سمیت سات ملزمان ضمانت پر رہا تھے۔ بلدیہ فیکٹری کیس میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما حماد صدیقی اور علی حسن قادری اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے 23 افراد کی سوختہ لاشوں کی شناخت آج تک ممکن نہیں ہو سکی۔
مختصر فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا پر فیکٹری کو 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر آگ لگانے کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔ جب کہ فیکٹری مینیجر شاہ رخ، ارشد محمود، فضل احمد اور علی محمد کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
سانحہ بلدیہ کیس میں 400 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ آگ لگانے کی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا بھتہ تھا۔
ان آٹھ برس کے دوران اس کیس کے کئی تفتیشی افسران تبدیل ہوئے اور متعدد ججز نے بھی سماعت سے معذرت کی۔ جب کہ 6 سرکاری وکلا نے دھمکیاں ملنے کے بعد مقدمہ کی پیروی چھوڑ دی تھی۔
واقعے کا مقدمہ پہلے سائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
'آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی'
مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ 2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اور عبدالعزیز عدالتی اجازت کے بعد دبئی چلے گئے۔ 6 فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ بلدیہ کی علی انٹرپرائز فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق ملزم کا کہنا تھا کہ آگ لگانے کی وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا کروڑوں روپے کا بھتہ تھا۔
ملزم کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمٰن عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر آگ لگائی۔ 2015 میں ملزم رضوان قریشی کے بیان کی روشنی میں تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جا کر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔
'رحمٰن بھولا کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا تھا'
سن 2016 میں اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ پر چالان انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرایا گیا۔ اسی سال دسمبر میں رحمٰن بھولا کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا اور پھر کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔
جنوری 2019 میں کیس کے مرکزی ملزم عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سے مکر گئے تھے۔
دو ستمبر 2020 کو گواہان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔