سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاؤن، کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عذیر بلوچ اور سابق نائب چیئرمین، فشرمین کوآپریٹیو نثار مورائی سے متعلق ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس (جے آئی ٹی یا جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹس) کو جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت نے یہ حکم پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کی درخواست پر جاری کیا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق، ان جے آئی ٹیز میں مبینہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنماؤں کے مجرمانہ ریکارڈ کے شواہد موجود ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جیسے گھناؤنے جرائم کی وجہ کیا بنی۔
جسٹس کلہوڑو نے کہا کہ جمہوری نظام حکومت میں لوگوں کو جاننے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ اگر اس طرح کے بربریت کے واقعات رونما ہوں تو عوام کو اس کی معلومات کی رسائی سے روکا نہیں جا سکتا۔
فیصلے میں، عدالت نے کہا ہے کہ اگر حکومت وقت سچ بتانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تو اس سے سارا نظام کمزور پڑ سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تیار کردہ رپورٹس مکمل طور پر عوامی دستاویزات کے زمرے میں آتی ہیں۔
مقدمے کے فیصلے میں عدالت نے آئین کے آرٹیکل 19 اے کا بھی حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ عوامی نوعیت کی تمام چیزوں کے بارے میں جان سکے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ عزیر بلوچ اور بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں پائی گئی جو کہ قومی سلامتی کے خلاف ہے اس لیے ان رپورٹس کو پبلک کرنے میں کوئی حرج نہیں، جب کہ بہت سارے حقائق عوام پہلے ہی سے جانتے ہیں۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ اس عمل سے عدالتوں میں جاری ان مقدمات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ان جے آئی ٹیز میں کن کے خلاف تحقیقات ہوئیں؟
واضح رہے کہ 2011 میں پیش آنے والے سانحہ بلدیہ میں سرکار کے مطابق بھتہ نہ دینے پر فیکٹری کو کیمیکل ڈال کر جلا دیا گیا تھا جس سے 259 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کیس میں ایم کیو ایم کے بعض رہنماوں کے ساتھ سابق ذمہ دار رحمان عرف بھولا کا نام بھی آتا ہے جو گرفتار اور کیس کا مرکزی کردار مانا جاتا ہے۔
اس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی ہی میں دوبارہ کیس انسداد دہشت گردی قوانین کی روشنی میں درج کیا گیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے سابق رہنما عذیر بلوچ کو فوج نے قومی راز غیر ملکی ایجنسیوں کو فاش کرنے پر گرفتار کر رکھا ہے۔ ان کے خلاف ہونے والی جے آئی ٹی میں مبینہ طور پر ملزم نے کئی ایسے سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنا شریک جرم قرار دیا ہے جو پیپلز پارٹی میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں، جبکہ سابق چئیرمین فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی پر بھی مجرموں کی پشت پناہی کے الزام عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والی جے آئی ٹی میں بھی ایسے ہی الزامات سامنے آئے ہیں۔ تاہم، حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر ان مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کی رپورٹس کبھی جاری نہیں کی گئیں۔
درخواست گزار کا کیا موقف تھا؟
درخواست گزار پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور بیرسٹر عمر سومرو کے مطابق، اس طرح درخواست کو دائر کرنے کا مقصد ان اہم مقدمات سے متعلق حقائق کو جاننا ہے۔ عمر سومرو کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ خود کئی مقدمات میں جے آئی ٹیز بنانے کی استدعا کر چکی ہے، جب جے آئی ٹیز نے اپنا کام مکمل کر لیا تو ان کی رپورٹ جاری کرنے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے۔
بقول ان کے، آئین کا آرٹیکل 19، رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ اور اس جیسے کئی قوانین شہریوں کو سانحہ بلدیہ جیسے کیسز سے متعلق جاننے کا پورا حق دیتے ہیں جو، ان کے الفاظ میں، صوبائی حکومت دینے کو تیار نہیں تھی۔ ان کے مطابق، ان جے آئی ٹیز کے سامنے آنے سے قومی سلامتی کو کوئی خطرات درپیش نہیں ہوگا۔
بیرسٹر عمر سومرو کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ یہ نکتہ طے کر چکی ہے کہ عوامی نوعیت کے کیسز میں کوئی بھی شہری فریق بن سکتا ہے۔ اسی لئے ان کے مؤکل بھی اس کیس میں فریق بنے تھے۔