حالیہ برسوں تک سندھ کی دوسری بڑی اور بااثر جماعت تصور کی جانے والی متحدہ قومی موومنٹ کو بنے 34سال ہوگئے ہیں۔ اتوار کو پارٹی کا یوم تاسیس منایا گیا لیکن اس انداز میں کہ اس کے دو اہم دھڑوں نے اس موقع پر الگ الگ جلسے منعقد کئے ۔
یہ دونوں دھڑے حالیہ ہفتوں کے دوران وجود میں آئے ہیں ۔ ایک گروپ کی قیادت فاروق ستار کررہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی سربراہی فی الحال خالد مقبول صدیقی کے ذمے ہے ۔ دونوں گروپس اپنے آپ کو حقیقی گروپ کہتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ایم کیو ایم دو دھڑوں یا گروپس میں بٹی ہوئی ہے ۔
فاروق ستار گروپ جو ’پی آئی بی گروپ‘ کہلاتا ہے اس نے یوم تاسیس کے سلسلے میں کراچی کے لیاقت آباد فلائی اوور پر جلسہ عام منعقد کیا جبکہ دوسرے گروپ نے نشتر پارک میں اتوار کو ہی جلسے کا انعقاد کیا۔
جلسے میں دونوں رہنماؤں کے خطاب سے واضح ہوتا ہے کہ کئی ہفتوں اور مہینوں کی کوششوں کے باوجود دونوں کے اختلافات دور نہیں ہوسکے ہیں اور شایدمستقبل قریب میں بھی ایسا نہ ہوسکے۔
ایم کیو ایم بہادرآباد گروپ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں فاروق ستار کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ فاروق ستار نے بہادر آباد گروپ کو آڑے ہاتھوں لیا۔
خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں فاروق ستار پر الزام لگایا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے سینیٹ کے لئے امیدوار چنے جبکہ یہ اختیار ان کو تھا ہی نہیں ۔ ان کے مطابق ٹکٹ دینے کا اختیار رابطہ کمیٹی کے علاوہ کسی کو نہیں ۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے کارکن نہیں ، فاروق ستار کے دوست ہیں ۔انہوں نے فاروق ستار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم قربانیاں مانگتی ہے۔ رابطہ کمیٹی میں 10آپ کے وفادار ہیں 10میرے ۔ معاملہ اصول کا ہے اور اصول پر کھڑاہوناہے۔ بڑا رنج ہے کہ آج ایم کیو ایم کے2یوم تاسیس ہو رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں اے پی ایم ایس او کا لیڈ ررہا لیکن آج تک کسی رشتے دارکوداخلہ تک نہیں دلایا۔یہ تنظیم اور کنوینر شپ کسی کی نہیں ،کارکنوں کی امانت تھی، کارکنوں کی امانت رہے گی۔تنظیم کہے تو میں کنوینر نہیں،ابھی نیچے جاکر بیٹھ جاؤں گا۔ تنظیم کو جوڑنا ہے تو میری کوئی شرط نہیں۔
اس موقع پر رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر و میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ کراچی کے ووٹرز اور کارکنان سب ایم کیو ایم کے پرچم تلے اور پتنگ کے ساتھ ایک ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن میں جو بندر بانٹ کی کوشش کی گئی اس پر ہمیں بھی افسوس ہے مگر کچھ مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے ہم نے یہ سیٹیں گنوائی ہیں ، ہمیں پتا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں غلطی کہاں ہوئی تھی وہ غلطی اس جلسہ کے بعد 2018ء کے الیکشن میں نہیں دہرائی جائے گی۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ نے بلدیاتی اداروں کے پاس کوئی اختیار نہیں چھوڑا ، کراچی کو اربوں کا فنڈ دینے والی پیپلز پارٹی کی جماعت صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہی ہے.
دوسری جانب فاروق ستار کا خطاب میں کہنا تھا کہ یوم تاسیس کی مبارکباد نہیں دوں گا۔ بہت تکلیف کےساتھ یوم تاسیس علیحدہ علیحدہ منارہے ہیں۔لیاقت آباد میں آج نظریاتی لوگوں کا اجتماع ہے۔چونتیس سال سےایم کیوایم کوختم کرنےکی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم نےپاکستان کےلیےلاکھوں جانوں کا نذرانہ دیا،آگ اورخون کےدریاپارکیےہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ’حقیقی ٹو بنائی جارہی ہے۔ ہمارے صبر کاامتحان نہ لیا جائے۔ ہمیں پرامن سیاسی عمل سےالگ نہ کیاجائے۔ہم نے آئین پاکستان کے لیے اپنےلیڈر سے علیحدگی اختیار کی۔ 23اگست کو ایم کیو ایم کو تقسیم ہونے سے بچایا۔ ہمیں سیاسی جمہوری عمل سے اب مزید باہر نہ کیاجائے۔ وارننگ دیتاہوں ہمیں سیاسی اسپیس دی جائے۔‘
جلسے سے فاروق ستار کے علاوہ کامران ٹیسوری نے بھی خطاب کیا ۔ اس دوران وہ آبدیدہ ہوگئے اور ایم کیوایم چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ میرا یہاں آخری خطاب ہے۔ پتا نہیں بہادرآباد کوکیابات بری لگی۔ میں نےسب اللہ پرچھوڑدیا۔ میرےخلاف بہت کچھ کہاگیا۔پارٹی چھوڑوں گاتولوگوں کی اناختم ہوجائےگی۔ مہاجروں کی تقسیم بچتی ہے تومیں استعفا دیتا ہوں۔
یوم تاسیس کے انعقاد کے سلسلے میں پچھلے کئی دنوں سے تیاریاں جاری تھیں ۔ شہر بھر میں پارٹی پرچم لگائے گئے جبکہ بیشتر مقامات پر کیمپ بھی لگے رہے جن کا مقصد عام لوگوں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دینا تھا۔ عوام کی دلچسپی کی غرض سے نشتر پارک میں سابقہ سالوں کی طرح ایک رات قبل ’پتنگ میلے ‘کا بھی اہتمام کیا گیاتھا۔ اس دوران جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے فاروق ستار نےمختلف علاقوں کا دورہ بھی کیا اور عوام میں گھل مل گئے۔
دونوں گروپسں کی جانب سے اپنے اپنے جلسوں میں کارکنان کی بڑی تعداد میں شرکت کےدعوے کیے گئے تھے لیکن دونوں ہی جلسوں میں روایتی گہما گہمی نظر نہیں آئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ گروپس کے ساتھ ساتھ اس کے کارکنوں میں بھی ’بٹوارہ ‘ہوگیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم میں سینیٹ انتخابات سے قبل سے نظر آنے والی دراڑیں اب مزید واضح ہو رہی ہیں. دونوں گروپس اپنی بات پر قائم ہیں اور لچک دکھانے کو تیار نہیں. اس سے پارٹی کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے جس کا نقصان صرف چند ماہ بعد ہونے والے الیکشن میں بھی ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم اس وقت کراچی سے قومی اسمبلی کی 20 میں سے 18 نشستوں پر براجمان ہے۔ تاہم آئندہ عام انتخابات میں مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی, تحریک انصاف, جماعت اسلامی, پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی موجودگی میں ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم مل سکتا ہے جو گزشتہ کئی دھائیوں سے کراچی سے مستقل نمائندگی حاصل کرتی آئی ہے.