’امریکہ ایران چپقلش سے مشرق وسطیٰ مزید غیر مستحکم ہو گا‘

  • ندیم یعقوب

ایران کے اہم فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران کی جانب سے عراق کے دو فوجی اڈوں پر میزائل حملوں اور امریکہ کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہ کرنے سے بظاہر لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ تاہم بہت سے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان خفیہ جنگ یا پراکسی کارروائیوں میں شدت آئے گی۔

جمعے کے روز ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی یکایک بڑھ گئی تھی اور ایسے لگتا تھا کہ امریکہ اور ایران جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔

واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل سے منسلک ایران امور کی ماہر باربرا سلاون نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے مشرق وسطیٰ کے لئے ایک بھونچال قرار دیا۔ وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکی کارروائی سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہو گا۔ ’’ایران ہر صورت میں انتقامی کارروائی کرے گا‘‘۔

ایرانی عوام عراق میں امریکی فوجی اڈوں جوابی میزائل حملوں پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایرانی حکومت نے وعدے کے مطابق چند روز بعد ہی عراق میں دو ایسے فوجی اڈوں پر میزائلوں سے حملے کئے جہاں امریکی دستے تعینات ہیں۔ اگلی صبح صدر ٹرمپ نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت امریکی فوجیوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اس وقت کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتا۔

واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے منسلک سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار مائیکل او ہینلن کا خیال ہے کہ ایران اور امریکہ کو معلوم ہے کہ روائتی جنگ، جس میں حکومتیں گرانے یا علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دونوں کے مفاد میں نہیں۔ ’’البتہ یہ ممکن ہے کہ امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے۔ اس صورت میں ایران مختلف طریقوں سے جوابی کارروائی کرے گا۔ یہ کارروائی پروکسیز کے ذریعے ہو گی‘‘۔

عراق میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں عراقی حکومت نے اپنی سرزمین سے امریکی افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ عراق میں جنگ کے خاتمے کے باوجود امریکہ کے لگ بھگ 6000 فوجی تعینات ہیں۔

سیٹلائٹ کی اس تصویر میں عراق میں امریکی فوجی اڈے الاسد پر ایرانی میزائل حملے سے ہونے والے نقصانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

تجزیہ کار باربرا سلاون کہتی ہیں کہ امریکہ کے لئے اب عراق اور لبنان میں فوجی دستے تعینات رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ وہ کہتی ہیں، ’’دنیا کے کئی حصوں میں امریکیوں کو خبردار رہنا ہو گا۔ حزب اللہ کے رکن پوری دینا میں ہیں، جنہیں امریکی سفارت کاروں اور فوجی اہل کاروں اور عام شہریوں کے خلاف متحرک کیا جا سکتا ہے‘‘۔

مائیکل او ہینلن اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب عراق اور امریکہ کے تعلقات کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی خرابی سے بغداد میں ایران کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہو گا۔ امریکی کارروائی سے پہلے عراق میں عوام ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی کی قیادت میں ایران نے نہ صرف عراق بلکہ شام، لبنان، یمن اور افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ باربرا سلاون سمجھتی ہیں کہ، ’’لبنان میں حزب اللہ بہت طاقتور ہے اور ایران کے شام کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ تو اب شیعہ ہلال کہلانے والا خطہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گا ‘‘۔

ایرانی جنرل سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے خلاف واشنگٹن میں مظاہرہ۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے صدر پال سالم نے امریکی کارروائی سے قبل خطے کے بارے میں اپنا تجزیہ دیتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے غیر مستحکم ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ بقول ان کے یہ دنیا میں واحد خطہ ہے جہاں کوئی علاقائی سیاسی تنظیم یا ادارہ موجود نہیں، جہاں مختلف ریاستوں کے رہنما مل سکیں اور اپنے معاملات پر بحث کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ خطہ اپنے آپ سے لڑ رہا ہے۔ ایران محسوس کرتا ہے اسے امریکہ، اسرائیل اور خلیجی ممالک سے خطرہ ہے۔ سعودی عرب، اسرائیل اور ترکی بھی دوسروں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ‘‘

پال سالم کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک میں اکثر عوام اور حکومتوں کے درمیان تنازع کھڑا ہو جاتا ہے، ’’الجیریا، سوڈان، لبنان اور عراق میں عوام اپنی حکومتوں کے خلاف ہیں، ‘‘اس سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ مصر، لیبیا، یمن اور ایران میں عوام اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

تجزیہ کار متفق ہیں کہ حالیہ واقعات کی وجہ سے مشرق وسطیٰ مزید غیر مستحکم ہو گا۔