وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ یوکرین حکام کی طرف سے ’کیو‘ میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی پُرتشدد کارروائی ’ناقابلِ قبول‘ ہے
واشنگٹن —
یوکرین کے صدر وِکٹر ینوکوف کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط سے انکار کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے، ملک کے ہزاروں لوگوں نے پیر کے روز اہم سرکاری عمارتوں کے سامنے شدید احتجاجی مظاہرے کیے۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پیر کے دِن شہر ’کیو‘ میں کابینہ اور مرکزی بینک کے دفاتر کے داخلی درزاوں کو بلاک کر دیا، جس سے ایک ہی روز قبل دارالحکومت میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
اِن زوردار مظاہروں کا اتوار کے روز اُس وقت آغاز ہوا جب سرکاری عمارات کی طرف بڑھتے ہوئے ایک احتجاجی مظاہرے پر پولیس نے آنسو گیس پھینکی اور مصنوعی دستی بم استعمال کیے۔ اِس موقعے پر 200سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
یوکرین کے وزیر اعظم، مائی کولا عزیروف نے پیر کے دِن بتایا کہ مظاہرین کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے تمام آثار نمایاں تھے۔
دریں اثنا، یوکرین کے حزب مخالف کے راہنما، اَرسنی یات سَنک نے نامہ نگاروں کوبتایا کہ اس تعطل کا بس ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے قبل از وقت انتخابات۔
پیر ہی کے روز، وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ ’کیو‘ میں یوکرین کے حکام کی طرف سے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی پُرتشدد کارروائی ’ناقابلِ قبول‘ ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے یوکرین کے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد سے باز رہیں، اور اُن کے بقول، ایک بامقصد بات چیت شروع کریں۔
یورپی کمیشن کے صدر، ہوزے مینوئل بروسو نے بھی دونوں فریق سے تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، جو مسٹر ینوکوف کے اہم حامی ہیں، کہا ہے کہ یوکرین میں کیا جانے والا احتجاج انقلاب سے زیادہ نسل کُشی معلوم ہوتا ہے۔
اکیس نومبر سے احتجاج میں اضافہ آتا جا رہا ہے، جب یوکرین کے صدر نے یورپی یونین سے تجارتی سمجھوتا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک کے روس سے زیادہ قریبی تعلقات قائم ہوں۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پیر کے دِن شہر ’کیو‘ میں کابینہ اور مرکزی بینک کے دفاتر کے داخلی درزاوں کو بلاک کر دیا، جس سے ایک ہی روز قبل دارالحکومت میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
اِن زوردار مظاہروں کا اتوار کے روز اُس وقت آغاز ہوا جب سرکاری عمارات کی طرف بڑھتے ہوئے ایک احتجاجی مظاہرے پر پولیس نے آنسو گیس پھینکی اور مصنوعی دستی بم استعمال کیے۔ اِس موقعے پر 200سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
یوکرین کے وزیر اعظم، مائی کولا عزیروف نے پیر کے دِن بتایا کہ مظاہرین کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے تمام آثار نمایاں تھے۔
دریں اثنا، یوکرین کے حزب مخالف کے راہنما، اَرسنی یات سَنک نے نامہ نگاروں کوبتایا کہ اس تعطل کا بس ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے قبل از وقت انتخابات۔
پیر ہی کے روز، وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ ’کیو‘ میں یوکرین کے حکام کی طرف سے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی پُرتشدد کارروائی ’ناقابلِ قبول‘ ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے یوکرین کے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد سے باز رہیں، اور اُن کے بقول، ایک بامقصد بات چیت شروع کریں۔
یورپی کمیشن کے صدر، ہوزے مینوئل بروسو نے بھی دونوں فریق سے تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن، جو مسٹر ینوکوف کے اہم حامی ہیں، کہا ہے کہ یوکرین میں کیا جانے والا احتجاج انقلاب سے زیادہ نسل کُشی معلوم ہوتا ہے۔
اکیس نومبر سے احتجاج میں اضافہ آتا جا رہا ہے، جب یوکرین کے صدر نے یورپی یونین سے تجارتی سمجھوتا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک کے روس سے زیادہ قریبی تعلقات قائم ہوں۔