امریکہ اور برطانیہ نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فوجیں یوکرین روانہ نہ کرے۔ قومی سلامتی کی امریکی مشیر، سوزن رائس نے کہا ہے کہ روسی فوجی مداخلت ’ فاش غلطی ہوگی‘؛ ادھر روس نے مسٹر یانوکووچ کی معطلی کو’ ایک مسلح بغاوت‘ قرار دیا ہے
واشنگٹن —
چند روز کی خاموشی کے بعد، آخرکار حکومت ِروس نے پیر کے روز یوکرین کے واقعات پر اپنا ردِعمل ظاہر کیا۔ روسی وزیر اعظم نے کئیف کی عبوری حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں، جب کہ روسی وزارتِ خارجہ نے الزام لگایا ہے کہ نئی حکومت کے مخالفین کے خلاف ’آمرانہ‘ اور ’دہشت گردانہ‘ طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔
یوکرین کے صدر وِکٹر یانوکووچ کو معزول کیے جانے کے ذمہ دار حلقوں کا حوالہ دیتے ہوئے، روسی وزیر اعظم دِمتری مدویدیو نے ماسکو میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب روسی حکومت کی طرف سے یوکرین کے معاملات پر بات کرنے کے لیے وہاں کوئی باقی نہیں رہا۔
اُنھوں نے مسٹر یانوکووچ کی معطلی کو’ ایک مسلح بغاوت‘ قرار دیا۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے ایسے ہی جذبات کو دہراتے ہوئے کہا ہےکہ یوکرین کے حالیہ واقعات ’ٹھگوں کےمسلح ٹولے‘ کی طرف سے قانون کا نفاذ کرنے والوں کے ساتھ مسلح محاذ آرائی تھی، جِس میں اہل کاروں کا کردار سویلینز کو تحفظ فراہم کرنے کی ایک کوشش تھا۔
روسی وزارت خارجہ نے یوکرین کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ، بقول اُس کے، ’انتہا پسندوں کی اقتدار پر قبضے کی کوشش کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں‘۔
اُس نے یوکرین کے پارلیمان پر ایسے اقدام کرنے کا الزام لگایا، جن کا مقصد، بقول روسی وزارت خارجہ کے، روسیوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے حقوق صلب کرنا ہے۔
ماسکو نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کے نئے اہل کار روسی زبان پر بندش عائد کرنے اور نئے نازی پروپیگنڈہ کے ہتھکنڈوں پر عائد پابندیاں ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور اُس نے روس کے نامعلوم ’مغربی پارٹنرز‘ پر الزام لگایا کہ وہ اِن کارروائیوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فوجیں یوکرین روانہ نہ کرے۔ قومی سلامتی کی امریکی مشیر، سوزن رائس نے کہا ہے کہ روسی فوجی مداخلت ’ فاش غلطی ہوگی‘۔
اتوار کے روز، روس نے مشاورت کی غرض سےکئیف سے اپنا سفیر بلالیا، جسے، اُس نے، ’یوکرین کی دگرگوں صورت حال‘ سے تعبیر کیا ہے۔
یوکرین کے صدر وِکٹر یانوکووچ کو معزول کیے جانے کے ذمہ دار حلقوں کا حوالہ دیتے ہوئے، روسی وزیر اعظم دِمتری مدویدیو نے ماسکو میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب روسی حکومت کی طرف سے یوکرین کے معاملات پر بات کرنے کے لیے وہاں کوئی باقی نہیں رہا۔
اُنھوں نے مسٹر یانوکووچ کی معطلی کو’ ایک مسلح بغاوت‘ قرار دیا۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے ایسے ہی جذبات کو دہراتے ہوئے کہا ہےکہ یوکرین کے حالیہ واقعات ’ٹھگوں کےمسلح ٹولے‘ کی طرف سے قانون کا نفاذ کرنے والوں کے ساتھ مسلح محاذ آرائی تھی، جِس میں اہل کاروں کا کردار سویلینز کو تحفظ فراہم کرنے کی ایک کوشش تھا۔
روسی وزارت خارجہ نے یوکرین کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ، بقول اُس کے، ’انتہا پسندوں کی اقتدار پر قبضے کی کوشش کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں‘۔
اُس نے یوکرین کے پارلیمان پر ایسے اقدام کرنے کا الزام لگایا، جن کا مقصد، بقول روسی وزارت خارجہ کے، روسیوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے حقوق صلب کرنا ہے۔
ماسکو نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کے نئے اہل کار روسی زبان پر بندش عائد کرنے اور نئے نازی پروپیگنڈہ کے ہتھکنڈوں پر عائد پابندیاں ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور اُس نے روس کے نامعلوم ’مغربی پارٹنرز‘ پر الزام لگایا کہ وہ اِن کارروائیوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی فوجیں یوکرین روانہ نہ کرے۔ قومی سلامتی کی امریکی مشیر، سوزن رائس نے کہا ہے کہ روسی فوجی مداخلت ’ فاش غلطی ہوگی‘۔
اتوار کے روز، روس نے مشاورت کی غرض سےکئیف سے اپنا سفیر بلالیا، جسے، اُس نے، ’یوکرین کی دگرگوں صورت حال‘ سے تعبیر کیا ہے۔