اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق پہلے عالمی معاہدے کی کثرتِ رائے سے منظوری دیدی ہے۔
واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق پہلے عالمی معاہدے کی کثرتِ رائے سے منظوری دیدی ہے۔
معاہدے کے مقصد دنیا بھر میں روایتی اسلحے کی تجارت کو بین الاقوامی ضابطوں کے تحت لانا ہے۔ اس تجارت کا حجم محتاط اندازوں کے مطابق 80 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
نیا عالمی معاہدہ کسی بھی ملک میں دستیاب اسلحے کے اندرونِ ملک استعمال پر لاگو نہیں ہوگا لیکن اس کے تحت حکومتیں روایتی ہتھیاروں اور ان کے پرزہ جات کی منتقلی سے متعلق قانون سازی کرنے اور ہتھیاروں کے تاجروں سے قوانین پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہوں گی۔
نئے معاہدے کے اطلاق صرف روایتی اسلحے پر ہوتا ہے جن میں ہلکے ہتھیاروں سے لے کر جنگی ٹینک اور بحری جہاز تک شامل ہیں۔
عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی نے منگل کو نئے معاہدے کی منظوری سے متعلق قرارداد 3 کے مقابلے میں 154 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور کی۔
جن تین ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ان میں شام، شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے بھی قرارداد پر رائے شماری رکوادی تھی۔
روس سمیت 23 ممالک نے قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کے تحت ممالک کی جانب سے نئے معاہدے کی توثیق کا عمل رواں سال جون میں شروع ہوجائے گا۔
معاہدے کے تحت اگر کسی فریق کی جانب سے روایتی ہتھیاروں کو نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں استعمال کیے جانے کا اندیشہ ہو تو معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اسے یہ ہتھیار فراہم نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
معاہدے کی رو سے روایتی ہتھیاروں کی ایسے ملکوں اور فریقوں کو برآمد پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے جو انہیں عام شہریوں یا شہری املاک، مثلاً اسکولوں اور اسپتالوں، پر حملے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کے لیے اس بات کا تعین کرنا لازمی ہوگا کہ ان کے برآمد کردہ ہتھیار بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق یا ان سے متعلق قوانین پامال کرنے کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے فراہم کردہ ہتھیار دہشت گردوں اور منظم جرائم میں ملوث گروہوں کے ہاتھ نہیں لگیں گے اور نہ انہیں امنِ عامہ اور سیکیورٹی کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
معاہدے کے مقصد دنیا بھر میں روایتی اسلحے کی تجارت کو بین الاقوامی ضابطوں کے تحت لانا ہے۔ اس تجارت کا حجم محتاط اندازوں کے مطابق 80 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
نیا عالمی معاہدہ کسی بھی ملک میں دستیاب اسلحے کے اندرونِ ملک استعمال پر لاگو نہیں ہوگا لیکن اس کے تحت حکومتیں روایتی ہتھیاروں اور ان کے پرزہ جات کی منتقلی سے متعلق قانون سازی کرنے اور ہتھیاروں کے تاجروں سے قوانین پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہوں گی۔
نئے معاہدے کے اطلاق صرف روایتی اسلحے پر ہوتا ہے جن میں ہلکے ہتھیاروں سے لے کر جنگی ٹینک اور بحری جہاز تک شامل ہیں۔
عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی نے منگل کو نئے معاہدے کی منظوری سے متعلق قرارداد 3 کے مقابلے میں 154 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور کی۔
جن تین ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ان میں شام، شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے بھی قرارداد پر رائے شماری رکوادی تھی۔
روس سمیت 23 ممالک نے قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کے تحت ممالک کی جانب سے نئے معاہدے کی توثیق کا عمل رواں سال جون میں شروع ہوجائے گا۔
معاہدے کے تحت اگر کسی فریق کی جانب سے روایتی ہتھیاروں کو نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں استعمال کیے جانے کا اندیشہ ہو تو معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اسے یہ ہتھیار فراہم نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
معاہدے کی رو سے روایتی ہتھیاروں کی ایسے ملکوں اور فریقوں کو برآمد پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے جو انہیں عام شہریوں یا شہری املاک، مثلاً اسکولوں اور اسپتالوں، پر حملے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کے لیے اس بات کا تعین کرنا لازمی ہوگا کہ ان کے برآمد کردہ ہتھیار بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق یا ان سے متعلق قوانین پامال کرنے کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے فراہم کردہ ہتھیار دہشت گردوں اور منظم جرائم میں ملوث گروہوں کے ہاتھ نہیں لگیں گے اور نہ انہیں امنِ عامہ اور سیکیورٹی کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔