اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے دنیا میں روایتی ہتھیاروں کے پھیلائو پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے عالمی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ دنیا میں ٹینکوں، جنگی طیاروں اور آتشیں اسلحے جیسے روایتی ہتھیاروں کا سیلاب آیا ہوا ہے جن کی سالانہ تجارت کا حجم 40 سے 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مطابق ان ہتھیاروں میں سے کئی شام، سوڈان، کانگو اور دیگر کئی ممالک میں تنازعات کو فروغ دینے اور وہاں ڈھائے جانے والے مظالم میں استعمال ہورہے ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ یہ ہتھیار اب تک لاتعداد لوگوں کی جان لے چکے ہیں اور اگر عالمی برادری نے انہیں ظالم حکومتوں، دہشت گردوں اور مجرموں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے سرگرمی نہ دکھائی، تو یہ ہتھیار مزید لاتعداد لوگوں کی جان لینے کا باعث بنیں گے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ یہ حقیقت مضحکہ خیز ہے کہ تیل سے لے کر غذائی اجناس تک ہر شے کی بین الاقوامی تجارت کے لیے عالمی ضابطے اور قوانین موجود ہیں لیکن روایتی ہتھیاروں کی تجارت اور خرید و فروخت کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی عالمی معاہدہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
اخبار کے مطابق اقوامِ متحدہ کو اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہے اور اسی لیے گزشتہ ایک دہائی سے جاری کوششوں کے بعد بالآخر ادارے کے رکن ممالک نے روایتی ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت کو منظم کرنے کے لیے ایک عالمی معاہدے پر رواں ہفتے مذاکرات شروع کیے ہیں۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ مہینے کے اختتام تک یہ ممالک کسی معاہدے پر متفق ہوسکتے ہیں۔لیکن اخبار نے خبردار کیا ہے کہ کسی موثر معاہدے پر اتفاقِ رائے آسان نہیں ہوگا کیوں کہ بات چیت میں شریک کوئی ایک بھی ملک ایسے کسی معاہدے کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ تمام ممالک کے لیے مجوزہ معاہدے کی پاسداری لازمی قرار دی جائے جب کہ اس کا اطلاق ہر قسم کے ہتھیاروں بشمول گولہ بارود پر بھی ہونا چاہیے۔ اخبار نے تجویز دی ہے کہ معاہدے میں حکومتوں کو کسی بھی ایسی ریاست کو اسلحہ فروخت نہ کرنے کا پابند کیا جائے جہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر نہ ہو۔
'نیو یارک ٹائمز' نے لکھا ہے کہ روس، چین، ایران، کیوبا اور پاکستان ہتھیاروں کی فروخت کو انسانی حقوق کی صورتِ حال سے مشروط کرنے کی تجویز کے مخالف ہیں جو عین قرین از قیاس ہے ۔ یہ ممالک بشمول امریکہ گولہ بارود کو بھی معاہدے کے دائرہ اختیار میں لانے کی تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دے کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں کیوں کہ ان ممالک کا موقف ہے کہ گولہ بارود کے استعمال کا سراغ لگانا مشکل ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مطابق اقوامِ متحدہ کے 192 اراکین میں سے صرف 52 ممالک میں ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق قوانین موجود ہیں جن میں سے بھی صرف نصف ممالک ایسے ہیں جہاں ان قوانین کی پابندی نہ کرنے والے افراد کو سزائیں دی جاتی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن اوباما انتظامیہ ہتھیاروں کی تجارت کے لیے بین الاقوامی ضابطے وضع کرنے کی کوششوں کی حمایت کر رہی ہے۔ اخبار نے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مقامی اسلحہ سازوں کے دبائو میں آئے بغیر ایک ایسے معاہدے کے حصول کو یقینی بنائے جس سے مستقبل کے خطرات کا ازالہ کیا جاسکے۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے ایک اداریے میں بھی ہتھیاروں سے لاحق خطرات کو موضوع بناتے ہوئے امریکہ میں میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کو حملے کے لیے تیار حالت میں رکھنے پر تنقید کی گئی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ نیوکلیئر وار ہیڈز سے لدے اپنے میزائل تیار حالت میں رکھتا تھا جو امریکی صدر کے حکم پر محض تین سے چار منٹ میں فائر کیے جاسکتے تھے۔ اس دور کے ہر امریکی صدر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد اس بارے میں بریفنگ دی جاتی تھی کہ کس طرح روس کے کسی بھی ممکنہ میزائل حملے کے خطرے کی صورت میں انہیں 13 منٹ کے اندر اندر پیشگی حملے کا فیصلہ کرنا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ آج سرد جنگ کے خاتمے کے 20 برس بعد بھی جوہری ہتھیاروں سے لدے امریکہ کے زمین پر نصب تمام اور سمندر میں موجود آبدوزوں میں نصب بیشتر میزائل تیار حالت میں ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ 2008ء میں صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میزائلوں کو تیار حالت میں رکھنے کی حکمتِ عملی کا روس کے ساتھ مل کر از سرِ نو جائزہ لینے کا وعدہ کیا تھا لیکن تاحال اس سمت میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ کی طرح روس نے بھی اپنے میزائل تیار حالت میں رکھے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس روش پر قائم ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ پر کسی بھی نیوکلیئر جنگ یا اچانک حملے کا امکان اب نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ نہ تو اب امریکہ اور روس دشمن رہے ہیں اور نہ ہی تیسری بڑی حریف قوت چین نے اپنے میزائلوں کو تیار حالت میں رکھا ہوا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق امریکہ اور روس کے حملے کے لیے تیار حالت میں نصب میزائلوں کی تعداد 1800 کے لگ بھگ ہے جسے موجودہ زمانہ امن میں پاگل پن ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ دونوں ملکوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور ان میزائلوں کے 'الرٹ اسٹیٹس' میں تبدیلی لانی چاہیے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ دنیا میں ٹینکوں، جنگی طیاروں اور آتشیں اسلحے جیسے روایتی ہتھیاروں کا سیلاب آیا ہوا ہے جن کی سالانہ تجارت کا حجم 40 سے 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مطابق ان ہتھیاروں میں سے کئی شام، سوڈان، کانگو اور دیگر کئی ممالک میں تنازعات کو فروغ دینے اور وہاں ڈھائے جانے والے مظالم میں استعمال ہورہے ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ یہ ہتھیار اب تک لاتعداد لوگوں کی جان لے چکے ہیں اور اگر عالمی برادری نے انہیں ظالم حکومتوں، دہشت گردوں اور مجرموں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے سرگرمی نہ دکھائی، تو یہ ہتھیار مزید لاتعداد لوگوں کی جان لینے کا باعث بنیں گے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ یہ حقیقت مضحکہ خیز ہے کہ تیل سے لے کر غذائی اجناس تک ہر شے کی بین الاقوامی تجارت کے لیے عالمی ضابطے اور قوانین موجود ہیں لیکن روایتی ہتھیاروں کی تجارت اور خرید و فروخت کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی عالمی معاہدہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
اخبار کے مطابق اقوامِ متحدہ کو اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہوگیا ہے اور اسی لیے گزشتہ ایک دہائی سے جاری کوششوں کے بعد بالآخر ادارے کے رکن ممالک نے روایتی ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت کو منظم کرنے کے لیے ایک عالمی معاہدے پر رواں ہفتے مذاکرات شروع کیے ہیں۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ مہینے کے اختتام تک یہ ممالک کسی معاہدے پر متفق ہوسکتے ہیں۔لیکن اخبار نے خبردار کیا ہے کہ کسی موثر معاہدے پر اتفاقِ رائے آسان نہیں ہوگا کیوں کہ بات چیت میں شریک کوئی ایک بھی ملک ایسے کسی معاہدے کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔
روس، چین، ایران، کیوبا اور پاکستان ہتھیاروں کی فروخت کو انسانی حقوق کی صورتِ حال سے مشروط کرنے کی تجویز کے مخالف ہیںنیویارک ٹائمز
اخبار نے لکھا ہے کہ تمام ممالک کے لیے مجوزہ معاہدے کی پاسداری لازمی قرار دی جائے جب کہ اس کا اطلاق ہر قسم کے ہتھیاروں بشمول گولہ بارود پر بھی ہونا چاہیے۔ اخبار نے تجویز دی ہے کہ معاہدے میں حکومتوں کو کسی بھی ایسی ریاست کو اسلحہ فروخت نہ کرنے کا پابند کیا جائے جہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر نہ ہو۔
'نیو یارک ٹائمز' نے لکھا ہے کہ روس، چین، ایران، کیوبا اور پاکستان ہتھیاروں کی فروخت کو انسانی حقوق کی صورتِ حال سے مشروط کرنے کی تجویز کے مخالف ہیں جو عین قرین از قیاس ہے ۔ یہ ممالک بشمول امریکہ گولہ بارود کو بھی معاہدے کے دائرہ اختیار میں لانے کی تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دے کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں کیوں کہ ان ممالک کا موقف ہے کہ گولہ بارود کے استعمال کا سراغ لگانا مشکل ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مطابق اقوامِ متحدہ کے 192 اراکین میں سے صرف 52 ممالک میں ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق قوانین موجود ہیں جن میں سے بھی صرف نصف ممالک ایسے ہیں جہاں ان قوانین کی پابندی نہ کرنے والے افراد کو سزائیں دی جاتی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن اوباما انتظامیہ ہتھیاروں کی تجارت کے لیے بین الاقوامی ضابطے وضع کرنے کی کوششوں کی حمایت کر رہی ہے۔ اخبار نے اوباما انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مقامی اسلحہ سازوں کے دبائو میں آئے بغیر ایک ایسے معاہدے کے حصول کو یقینی بنائے جس سے مستقبل کے خطرات کا ازالہ کیا جاسکے۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے ایک اداریے میں بھی ہتھیاروں سے لاحق خطرات کو موضوع بناتے ہوئے امریکہ میں میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کو حملے کے لیے تیار حالت میں رکھنے پر تنقید کی گئی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ نیوکلیئر وار ہیڈز سے لدے اپنے میزائل تیار حالت میں رکھتا تھا جو امریکی صدر کے حکم پر محض تین سے چار منٹ میں فائر کیے جاسکتے تھے۔ اس دور کے ہر امریکی صدر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد اس بارے میں بریفنگ دی جاتی تھی کہ کس طرح روس کے کسی بھی ممکنہ میزائل حملے کے خطرے کی صورت میں انہیں 13 منٹ کے اندر اندر پیشگی حملے کا فیصلہ کرنا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ آج سرد جنگ کے خاتمے کے 20 برس بعد بھی جوہری ہتھیاروں سے لدے امریکہ کے زمین پر نصب تمام اور سمندر میں موجود آبدوزوں میں نصب بیشتر میزائل تیار حالت میں ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ 2008ء میں صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میزائلوں کو تیار حالت میں رکھنے کی حکمتِ عملی کا روس کے ساتھ مل کر از سرِ نو جائزہ لینے کا وعدہ کیا تھا لیکن تاحال اس سمت میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
امریکہ اور روس کے حملے کے لیے تیار حالت میں نصب میزائلوں کی تعداد 1800 کے لگ بھگ ہےواشنگٹن پوسٹ
اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ کی طرح روس نے بھی اپنے میزائل تیار حالت میں رکھے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس روش پر قائم ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ پر کسی بھی نیوکلیئر جنگ یا اچانک حملے کا امکان اب نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ نہ تو اب امریکہ اور روس دشمن رہے ہیں اور نہ ہی تیسری بڑی حریف قوت چین نے اپنے میزائلوں کو تیار حالت میں رکھا ہوا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق امریکہ اور روس کے حملے کے لیے تیار حالت میں نصب میزائلوں کی تعداد 1800 کے لگ بھگ ہے جسے موجودہ زمانہ امن میں پاگل پن ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ دونوں ملکوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور ان میزائلوں کے 'الرٹ اسٹیٹس' میں تبدیلی لانی چاہیے۔