افغانستان کی صورت حال پر اوسلو میں طالبان اور سول سوسائٹی کے کارکنان کے ساتھ بات چیت کی دو روزہ نشستوں کے بعد یورپی یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، برطانیہ اور امریکہ کے خصوصی نمائندوں اور ایلچیوں کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان میں انسان بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں، تاکہ مشکلات کے شکار افغانوں کی تکالیف دور کی جاسکیں۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکا نے راستے میں حائل دشواریوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اشیائے ضروری کی رسد فوری طور پرمشکل میں پھنسے افغانوں کو فراہم کی جائے۔
یورپی یونین اور دیگر ملکوں کے شرکا نے اس بات کی یاددہانی پر زور دیا ہے کہ انسانی حقوق کی حرمت کا خاص خیال رکھا جائے، اور یہ کہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ افغانستان میں ایک جامع اور نمائندہ سیاسی نظام قائم کیا جائے، تاکہ افغانستان میں استحکام لایا جاسکے اور ملک کا مستقبل پرامن خطوط پر استوار ہوسکے۔
شرکا نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی تشویش ناک خلاف ورزیاں بند کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں ، جن میں حراست میں لینے کے یک طرفہ اقدامات بند کیے جائیں (جن میں حالیہ دنوں کے دوران انسانی حقوق کے لیے سرگرم خواتین کارکنان کی گرفتاری کا عمل بھی شامل ہے) جبری لاپتا کیے جانے کے حربے بند کیے جائیں، ذرائع ابلاغ کے خلاف سخت کارروائیاں، ماورائے عدالت ہلاکتیں، اذیت کے ہتھکنڈے اور خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم، روزگار اور محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہ دینے جیسے من مانے اقدامات واپس لیے جائیں۔
اس سے قبل، اقوام متحدہ نے افغانستان کے لیے ’ون یو این ٹرانزیشنل انگیجمنٹ فریم ورک (ٹی ای ایف) یعنی عبوری رابطے کےایک وسیع طریقہ کار کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد سال 2022ء کے دوران افغان عوام کو درپیش مشکلات میں کمی لانے میں مدد فراہم کرنا ہے، اس پروگرام پر فوری عمل درآمد کیا جائے گا۔اعلان کے مطابق، بہتر نتائج کے حصول کے لیے، وضع کردہ اس طریقہ کار کے ذریعے اقوام متحدہ کے نظام کو فعال اور مربوط بنایا جائے گا۔
عالمی ادارے نےبدھ کو ایک اعلان میں بتایا ہے کہ 'ٹرانزیشنل انگیج منٹ فریم ورک (ٹی اِی ایف)' حکمت عملی پر مبنی ایک دستاویز ہے، جس کے ذریعے اقوام متحدہ کی پوری ٹیم کی کوششوں کو مربوط انداز میں ترتیب د یا جائے گا تاکہ پریشان حال افغان عوام کی زندگیاں بچائی جاسکیں، انھیں درکار ضروری اشیا میسر آتی رہیں، جس میں صحت اورتعلیم کی سہولیات بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: اوسلو مذاکرات: 'طالبان عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لے رہے'عالمی ادارے کے افغانستان کے لیے مقیم اہل کار اور انسانی ہمدردی کے امور کے رابطہ کار، ڈاکٹر رمیز الاکبروف نے کہا ہے کہ 'ٹی ای ایف' کی حکمت عملی پر عمل درآمد پر آٹھ ارب ڈالر لاگت آئے گی، جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 'ریسپونس پلان' کے تحت 4 ارب 44 کروڑ ڈالر کی رقم ہوگی، جس کا اعلان اس سال 11 جنوری کو کیا گیا تھا۔
رابطہ کار نے کہا کہ اس رقم میں سے دو کروڑ اکیس لاکھ پریشان حال افغانوں کی جان بچانے کے لیے درکار امداد فراہم کی جائے گی۔
صحت اور تعلیم کے شعبوں کا ذکر کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ ان شعبہ جات کے کام کو جاری رکھنے کے لیے عالمی ادارے کو فوری طور پر مزید 3.6 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اس مد میں کمیونٹی سسٹم کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے اور چلانے کے لیے زیریں ڈھانچے کے کام کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس کام میں خواتین اور لڑکیوں کی سماجی اور معاشی ضروریات کو خصوصی اہمیت حاصل ہو گی۔
عہدے دار نے کہا کہ موسم سرما کی شدت کے باعث ضرورتمند افراد تک پہنچنا ایک دشوار ترین کام ہوگا، لیکن یہ بات قابل ستائش ہے کہ بین الاقوامی برادری افغان عوام کو درکار مدد فراہم کرنے میں مستعدی کے ساتھ پیش پیش ہے۔
ڈاکٹر الاکبروف نے بدھ کو کابل میں 'ٹرانزیشنل انگیج منٹ فریم ورک (ٹی اِی ایف)' کو جاری کرنے کا اعلان کیا، اس موقعے پر عالمی ادارے کی ٹیم کے نمائندے اور بین الاقوامی برادری کے ارکان بھی موجود تھے۔
افغان عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے، حالیہ دنوں کے دوران یورپی یونین نے 268ملین یوروز (302 ملین ڈالر) کا اعلان کیا ہے۔ عطیہ دہندگان میں امریکہ بھی شامل ہے جس نے 308 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، اٹلی، کینیڈا، جاپان، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، نیدرلینڈ، جمہوریہ کوریا نے بھی عطیات دیے ہیں۔ ساتھ ہی، ایشیائی ترقیاتی بینک نے خوراک کی فراہمی اور صحت اور تعلیم کے حوالے سے امداد میں 405 ملین ڈالر کی گرانٹ دینے کی منظوری دی ہے، جب کہ عالمی بینک اور افغانستان کے تعمیر نو کے ٹرسٹ کے فنڈ کی جانب سے اشیائے ضروریہ کے لیے امداد میں 280 ملین ڈالر کی ابتدائی رقم فراہم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
دوسری جانب ایک اور خبر کے مطابق، افغانستان کی سابق حکومت سے وابستہ سفارت کاراور عملہ جو امریکہ میں خدمات بجا لاتے رہے ہیں، انہیں ایک نیا مسئلہ درپیش ہے: ان کے سرکاری بینک اکاؤنٹ معطل ہوگئے ہیں۔
دو سینئر افغان سفارت کاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پروائس آف امریکہ کو بتایا کہ واشنگٹن میں قائم افغانستان کے سفارت خانے اور امریکہ ہی میں موجود دو افغان قونصل خانوں کے سٹی بینک کے اکاؤنٹ ایک ماہ سے زیادہ مدت سے بند پڑے ہیں۔
چونکہ کابل پر طالبان کا کنٹرول ہے، اس لیے واشنگٹن میں افغان سفارت خانے کو افغانستان سے رقوم نہیں بھیجی جاتیں، لیکن ابھی تک عملہ قونصل خانے کی جانب سے ادا کردہ عام خدمات کےعوض میسر آنے والی رقم پر گزارا کرتا رہا ہے۔
قونصل خانے کے پاس نئے پاسپورٹ کے اجرا کی درخواستیں نہیں آتیں۔ تاہم، وہ پرانے پاسپورٹ کی میعاد میں توسیع دینے کا کام کررہے ہیں۔ چونکہ پاسپورٹ کی میعاد میں توسیع کے لیے ملنے والی رقم افغانستان کے سفارت خانے کو دستیاب نہیں ہوتی، اس لیے سفارت خانے کا باقی ماندہ عملہ اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں 'بلینک چیک' جمع کراتے ہیں، پھر ہر ماہ کے اواخر میں یہ عملہ اکٹھا ہوکر سفارت خانے کی آمدن کے اعداد و شمار اکٹھا کرتاہے۔
ایک سابق افغان سفارت کار کے بقول، ''ہم نے امریکی محکمہ خارجہ سے بات چیت کی ہے، لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی''۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکی اہل کاروں نے ان سفارت کاروں کومشورہ دیا ہے کہ اس معاملے کو اعلانیہ طور پر بیان نہ کیا جائے۔
پانچ ماہ قبل جس حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے وہ باقی نہیں رہی، تقریباً 90 افغان سفارت کار چار مقامات پر سفارت کاری کے عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں، جن میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کے مستقل مندوب کا دفتر بھی شامل ہے۔
سفارت کار نے کہاہے کہ سرکاری بینک اکاؤنٹس کی منسوخی کے نتیجے میں سفارت خانے کے مالی لین دین، جس میں تنخواہیں، مکان کا کرایہ، ہیلتھ کیئرانشورنس شامل ہیں، کی ادائگیاں متاثر ہوئی ہے۔
اس ضمن میں جب امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا گیا تو ترجمان نے بتایا کہ افغان مشن کے ارکان کی اسناد سے متعلق کوئی تبدیلی عمل میں نہیں آئی۔ تاہم، ترجمان نے اکاؤنٹ کی معطلی کے بارے میں کچھ کہنے سے احتراز کیا۔