افغانستان میں طالبان حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ رواں برس مارچ تک لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیے جائیں گے۔
ان خیالات کا اظہار افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیر برائے ثقافت و اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں کیا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ مارچ تک ملک بھر میں خواتین اور بچیوں کے تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں گے اور وہاں تدریسی سرگرمیاں بحال ہو جائیں گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان کے بیشتر حصوں میں لڑکیاں اسکول جانے سے قاصر تھیں جب کہ صرف ساتویں جماعت تک بچیوں کو اسکولوں میں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔
بین الاقوامی برادری نے تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ عالمی برادری کا اصرار ہے کہ طالبان ملک میں جامع حکومت کے قیام کے علاوہ خواتین کو بھی حقوق دیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم میں اصل رکاوٹ تعلیمی اداروں میں گنجائش کی کمی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ الگ اسکولز ضروری ہیں جب کہ سب سے بڑا مسئلہ بچیوں کے ہاسٹلز کے لیے عمارتوں کی کمی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ آبادی والے علاقوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ کلاس رومز کافی نہیں ہیں بلکہ اُن کے لیے الگ الگ عمارتیں ضروری ہیں۔
سابق افغان حکومت کے اٹارنی جنرل آفس میں دیے گئے اس انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ وہ تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔ مذکورہ دفتر کو اب طالبان نے اپنی وزارتِ اطلاعات و ثقافت میں تبدیل کر دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بننے کے دعوؤں کے باوجود ملک کے 34 صوبوں میں سے 10 صوبوں کے علاوہ دیگر تمام میں ساتویں جماعت سے آگے کی کلاسز میں لڑکیوں کو اسکولوں میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
البتہ دارالحکومت کابل کی نجی جامعات اور ہائی اسکولز میں تعلمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس رومز بنائے گئے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ پراُمید ہیں کہ نئے سال (نوروز) کے آغاز تک یہ مسائل حل کر لیں گے۔
البتہ بین الاقوامی برادری خواتین کی تعلیم اور طالبان کے دیگر دعوؤں کے حوالے سے شکوک و شہبات کا اظہار کرتی رہی ہے۔
عالمی برادری کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ہم طالبان کو ان کے اعلانات سے نہیں بلکہ اقدامات سے جانچیں گے۔
امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کا یہ گلہ ہے کہ طالبان نے وعدے کے باوجود اپنی حکومت میں مختلف نسلی اقلیتوں کے علاوہ کسی بھی خاتون کو شامل نہیں کیا۔
البتہ ذبیح اللہ مجاہد کا دورانِ انٹرویو کہنا تھا کہ اُن کے نائب وزیرِ خزانہ اور وزارتِ خزانہ میں کئی افسران وہی ہیں جو امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے دور میں تھے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ سابق انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے والے 80 فی صد سول اہل کار کام پر واپس آ چکے ہیں اور خواتین صحت، تعلیم کے شعبوں اور کابل ایئرپورٹ میں کسٹم اور پاسپورٹ کنٹرول کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔
مجاہد نے بین الاقوامی برادری سے معاشی تعاون اور مضبوط سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بھی اپیل کی۔
خیال رہے کہ نہ تو اقوامِ متحدہ اور نہ ہی افغانستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
البتہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے زور دیا ہے کہ افغان معیشت کو سہارا دینے کے لیے وہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہاں بھوک اور غربت کے لاکھوں لوگ بے گھر ہو سکتے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اعداد و شمار دیے بغیر دعویٰ کیا کہ افغانستان کے محصولات کا 80 فی صد ایران، پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بارڈرز پر جمع ہونے والی کسٹم کی رقم سے حاصل ہو گا۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان حکومت نے چار ماہ میں اتنا ریونیو جمع کیا ہے جو سابقہ حکومت ایک برس میں بھی جمع نہیں کر پائی تھی۔
مجاہد نے طالبان اراکین کی طرف سے افغان شہریوں کو ہراساں کرنے اور نوجوانوں کو زبردستی بال کٹوانے پر مجبور کرنے کے واقعات کو تسلیم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے جرائم ہوتے ہیں تاہم یہ حکومتی پالیسی نہیں اور ان کے بقول جو افراد ان جرائم میں ملوث تھے، انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہمارا پیغام ہے کہ ان کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ان کے مخالف رہے اور ملک سے دور رہے۔
اس خبر کے لیے معلومات امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔