اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی اُمور کی نائب سیکرٹری جنرل کیونگ و ہاکانگ نے بتایا کہ سلامتی کے خدشات کے باعث یہ پاکستانی خاندان واپس نہیں جا پا رہے ہیں۔
اسلام آباد —
اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی اُمور کی نائب سیکرٹری جنرل کیونگ و ہاکانگ نے کہا ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے سلامتی کے خدشات کے باعث نقل مکانی کرنے والے خاندانوں میں سے اب بھی 11 لاکھ اپنے گھروں سے دور ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدیدار نے کہا کہ افراد کی واپسی کے لیے اُنھیں اس بات کی یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ وہ ایک محفوظ ماحول میں واپس جا رہے ہیں لیکن جب تک شورش اور قبائلی لڑائی جاری رہے گی اُن کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔
پاکستان میں سلامتی کے خدشات، قدرتی آفات اور غذائی قلت کی وجہ سے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ان میں زیادہ تعداد پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ اور ملحقہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہے۔
کیونگ نے جمعرات کو اپنے دورے کے آخری روز وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں کہا کہ نقل مکانی کرنے والوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید وسائل درکار ہوں گے۔
اقوم متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں 25 کروڑ ڈالر صرف ایک تخمینہ ہے لیکن کتنی رقم درکار ہو گی اس کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ وسائل غذائی قلت کے شکار لوگوں کے لیے امدادی مراکز کے قیام، ہنگامی طبی سہولتوں کو یقینی بنانے اور زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کے علاوہ نقل مکانی پر مجبور خاندانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں میں سے 95 فیصد اپنے عزیز و اقارب کے ہاں رہنے پر مجبور ہیں اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مہمان نوازی کرنے والے خاندانوں کی بھی مدد کی جائے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کار دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کانگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ غذا کی فراہمی ہے اور نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
حکومت پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو ضروری سامان کی فراہمی اور اُن کی دوبارہ اپنے علاقوں میں واپسی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں سینکڑوں خاندان حکومت اور فوج کی مدد سے اپنے علاقے میں دوبارہ واپس جا بھی چکے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی عہدیدار نے کہا کہ افراد کی واپسی کے لیے اُنھیں اس بات کی یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ وہ ایک محفوظ ماحول میں واپس جا رہے ہیں لیکن جب تک شورش اور قبائلی لڑائی جاری رہے گی اُن کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔
پاکستان میں سلامتی کے خدشات، قدرتی آفات اور غذائی قلت کی وجہ سے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ان میں زیادہ تعداد پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ اور ملحقہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہے۔
کیونگ نے جمعرات کو اپنے دورے کے آخری روز وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں کہا کہ نقل مکانی کرنے والوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید وسائل درکار ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوم متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں 25 کروڑ ڈالر صرف ایک تخمینہ ہے لیکن کتنی رقم درکار ہو گی اس کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ وسائل غذائی قلت کے شکار لوگوں کے لیے امدادی مراکز کے قیام، ہنگامی طبی سہولتوں کو یقینی بنانے اور زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کے علاوہ نقل مکانی پر مجبور خاندانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں میں سے 95 فیصد اپنے عزیز و اقارب کے ہاں رہنے پر مجبور ہیں اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مہمان نوازی کرنے والے خاندانوں کی بھی مدد کی جائے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کار دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کانگ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ غذا کی فراہمی ہے اور نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
حکومت پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو ضروری سامان کی فراہمی اور اُن کی دوبارہ اپنے علاقوں میں واپسی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں سینکڑوں خاندان حکومت اور فوج کی مدد سے اپنے علاقے میں دوبارہ واپس جا بھی چکے ہیں۔