|
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جمعرات کو کہا ہے کہ شام پر اسرائیلی فضائی حملے اس ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں بند ہونا چاہیے۔
دسمبر کے شروع میں شام میں باغیوں کے ہاتھوں صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل نے اس ملک پر سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں جن کا مقصد اسٹریٹجک ہتھیاروں اور فوجی ڈھانچوں کو تباہ کرنا تھا۔
گوتریس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی خودمختاری، علاقائی یک جہتی اور سالمیت کو مکمل طور پر بحال کیا جانا چاہیے اور جارحیت پر مبنی تمام کارروائیوں کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔
دمشق پر ہئیت تحریر الشام گروپ کی قیادت میں قبضے کے بعد اسرائیلی فوجی گولان کی پہاڑیوں میں شام اور اسرائیل کے درمیان بفر زون میں داخل ہو گئے ہیں۔ جب کہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایک معاہدے کے تحت یہ غیر فوجی علاقہ قائم کیا گیا تھا جس میں گشت کے لیے اقوام متحدہ کے امن فوجی تعینات کیے گئے تھے۔
اسرائیلی حکام نے اپنے اس اقدام کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ یہ ایک عارضی بندوبست ہے جس کا مقصد اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
تاہم اسرائیل نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ اس کے فوجیوں کی واپسی کب تک ہو گی۔
گوتریس کا مزید کہنا تھا کہ مجھے یہ واضح کرنے دیں کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے علاقے میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کے علاوہ کوئی اور فوجی موجود نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ حتمی بات ہے۔ اسرائیل اور شام کے درمیان جنگ کے خاتمے کے 1974 کے معاہدے کی شرائط کو برقرار رہنا چاہئیے جو مکمل طور پر نافذ العمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی توجہ شام میں جامع، قابل اعتماد اور پرامن سیاسی منتقلی اور دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد کے حصول پر مرکوز ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کی سرحدیں وقت کے ساتھ کس طرح بدلتی رہی ہیں؟
گوتریس نے کہا کہ کچھ کردار صورت حال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جو بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ شام کا مستقبل، ہم سب کی حمایت سے، اس کے لوگوں کو، اپنے عوام کے لیے تشکیل دینا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس نے میکسیکو کی ایک وکیل کارلا قنتانا کو شام میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک آزاد ادارے کا سربراہ نامزد کیا اور کہا کہ ان کی ٹیم کو اپنے مینڈیٹ پر مکمل طور پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2023 میں یہ ادارہ قائم کیا تھا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ شام میں لاپتہ ہونے والے افراد کے ساتھ کیا ہوا اور اس کے ساتھ اس کا کام متاثرین، زندہ بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کرنا تھا۔
SEE ALSO: شام کی اجتماعی قبروں سے کئی ہزار لوگوں کی شناخت کب ممکن ہوگی؟
قنتانا انسانی حقوق پر انٹر امیریکن کمیشن میں کام کر چکی ہیں اور وہ 2029 سے 2023 تک لاپتہ افراد سے متعلق میکسیکو کے نیشنل سرچ کمیش کی قیادت کر چکی ہیں۔
دی ہیگ میں قائم لاپتہ افراد سے متعلق بین الاقوامی کمیشن نے کہا ہے کہ اسے ملنے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ شام میں 66 تک غیر تصدیق شدہ اجتماعی قبریں موجود ہیں۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ، شام کے نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس سمیت بین الاقوامی اور شامی تنظیموں کے مطابق وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں جمہوریت نواز پرامن مظاہرین کے خلاف اسد حکومت کی جانب سے پر تشدد پکڑ دھکڑ سے ہوا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بیرون ملک فرار ہونا پڑا جبکہ مزید لاکھوں اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو گئے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)