روم میں منعقدہ جی 20 کے دو روزہ اجلاس کے خاتمے پر اجلاس میں شامل ملکوں کے لیڈروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ وسط صدی تک کاربن کے اخراج کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جب کہ اس سال کے آخر تک کوئلے کے پلانٹس میں سرمایہ کاری نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔
اتوار کو دو روزہ سربراہی کانفرنس کے اختتام پر جاری ایک مشترکہ اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
دوسری جانب آب و ہوا کی تبدیلی کے زمین پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے اور اس حوالے سے ہنگامی اقدامات کے لیے دنیا کے بڑے ممالک کی کانفرنس (سی او پی 26) کا آغاز اتوار سے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں شروع ہو رہا ہے۔ کانفرنس 31 اکتوبر سے 12 نومبر تک جاری رہے گی۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن بھی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جب کہ امریکہ کی جانب سے آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے اہم اعلانات متوقع ہیں۔
کانفرنس میں 2015 کے پیرس معاہدے کے دستخطی ممالک کے علاوہ آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ دنیا کے کئی ممالک کے نمائندہ وفود شرکت کر رہے ہیں۔
کانفرنس کے اہداف
سن 2015 کے پیرس معاہدے میں دنیا کے بڑے ممالک نے اتفاق کیا تھا کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کا مجموعی اوسط درجۂ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس سے بڑھنے نہیں دیں گے۔
البتہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی دیگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کے بغیر یہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین 18 ویں صدی کے اواخر کے مقابلے میں پہلے ہی ایک ڈگری گرم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک کو ہیٹ ویو، غیر متوقع شدید بارشیں، خشک سالی، سمندری طوفان، جنگلات میں آگ، سمندروں کی سطح میں اضافے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو مستقبل میں دنیا کو مزید خطرات کا سامنا ہو گا۔
گیسوں کے اخراج سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک نے دنیا کا درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک برقرار رکھنے کی جو یقین دہانیاں کرائی تھیں وہ بظاہر پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ممالک اس ڈگر پر چل رہے ہیں جس سے زمین کا اوسط درجۂ حرارت 2.7 ڈگری تک پہنچ سکتا ہے جو بلاشبہ ایک خوفناک صورتِ حال ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حتیٰ کے 2.7 ڈگری خطرے کی بات ہے، لیکن 2015 کے پیرس معاہدے سے قبل آب و ہوا میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں اس کے پیشِ نظر دنیا کا درجۂ حرارت 3.7 تک بھی پہنچ سکتا تھا۔
خیال رہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے یہ یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ وہ 2050 تک کاربن کے اخراج سے مبرا ٹیکنالوجیز کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ان وعدوں پر عمل ہوا تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے دنیا میں مزید درخت لگائے جا رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی بڑی معیشتوں اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے ذمے دار ممالک کے اقدامات کے باعث اوسط درجۂ حرارت 2.2 تک محدود رہے گا، یہ اب بھی بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ہدف کے قدرے قریب ہے۔
رپورٹس کے مطابق دنیا کے کئی ممالک نے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے لیے اپنے منصوبے پیش کیے ہیں۔ تاہم گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے بڑے ممالک چین اور بھارت تاحال اپنے نئے منصوبے سامنے نہیں لائے۔
ترقی پذیر ممالک کے تحفظات
یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ترقی پذیر ممالک کو یہ تحفظات ہیں کہ دنیا کے بڑے صنعتی ممالک نے آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 12 برس قبل کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔
ان ممالک کو گلہ ہے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کا سبب نہ بننے کے باوجود اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور دنیا کے امیر ممالک اس لحاظ سے ان کی مدد نہیں کر رہے جس طرح کی مدد اُنہیں درکار ہے۔
خیال رہے کہ 2009 میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالرز خرچ کریں گے۔
آرگنائزیشن فار اکونامک کوآپریشن اینڈ ڈویلمپنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے 2019 تک یہ فنڈنگ محض 79.7 ارب ڈالرز تک پہنچی تھی۔
ترقی پذیر ممالک آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی تباہی اور نقصانات کے ازالے کے لیے مزید امداد کا بھی تقاضا کرتے رہے ہیں۔
کیا امریکہ ڈیلیور کر سکتا ہے؟
امریکہ کے صدر جو بائیڈن (سی او پی 26) کانفرنس میں امریکہ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سے ہٹ کر امریکی موقف پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیرس معاہدے سے الگ ہو گئے تھے۔ تاہم جو بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔
جو بائیڈن نے بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کی طرح یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ امریکہ 2050 تک گرین ہاؤس گیسز کا اخراج صفر کر دے گا۔
البتہ بعض ماہرین کے مطابق سیاسی حقیقت اس ہدف کے حصول میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے۔