اقوام متحدہ: موسمیاتی تبدیلی پر عالمی سربراہان کا تاریخی اقدام

ساٹھ ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم، اور ساتھ ہی 130 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے درجنوں اہل کار نیویارک میں جمع ہوئے، جہاں اُنھوں نے دسمبر میں موسمیاتی تبدیلی پر پیرس میں ہونے والے معاہدے پر دستخط کیے

عالمی رہنماؤں نے جمعے کے دِن اقوام متحدہ میں ایک تاریخی اقدام کیا، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں کمی لانا اور ایک حد تک اُس سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کا انتظام کرنا ہے۔

ساٹھ ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم، اور ساتھ ہی 130 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے درجنوں اہل کار نیویارک میں جمع ہوئے، جہاں اُنھوں نے دسمبر میں موسمیاتی تبدیلی پر پیرس میں ہونے والے معاہدے پر دستخط کیے۔

دستخطی تقریب سے پہلے اپنے کلمات میں، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سمجھوتے کو سراہتے ہوئے اِسے ’’طاقتور اقدام‘‘ قرار دیا۔

بقول اُن کے، ’’اس سمجھوتے کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے کس نوعیت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، اِس کا قوی ہونا دنیا کو ایک اہم پیغام کا حامل ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ جدت کی جانب ایک پُراثر پیغام، ساجھے داری پر مبنی سرگرمی، سرمائے کی فراہمی اور حکومتوں کی جانب سے فیصلوں کا اقدام ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس کے لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ توانائی کے میدان میں نئے مستقبل کی تشریح کی گئی ہے، ایسا مستقبل جسے پہلے ہی سے وضاحت کردی گئی ہے، لیکن اِسے دریافت کیا جانا ابھی باقی ہے‘‘۔

کیری نے کہا کہ امریکہ اس معاہدے پر دستخط کا منتظر ہے اور بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اس کی پیروری کرے۔

سمجھوتے سے کیا مراد ہے؟

اس سمجھوتے کی مدد سے عالمی درجہٴ حرارت کو دو ڈگری سیلشئیس نیچے لانا ہے۔ اس کے ذریعے ایک واضح حکمتِ عملی بیان کردی گئی ہے جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائے گی اور کرہٴ ارض کو بڑھتی ہوئی حدت کا شکار ہونے سے بچانا ہے۔

دنیا کے سربراہان نے پیرس میں سمجھوتے کی تفاصیل طے کردی ہیں، جمعے کے روز نیویارک میں اس پر دستخط کرکے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے پیرس کے معاہدے کو سراہتے ہوئے، اِسے موسمیاتی تبدیلی پر دنیا کے عزم کے اظہار کا ’’ایک اہم موڑ‘‘ قرار دیا۔

اپنے کلمات میں، حالیہ دِنوں، اُنھوں نے کہا کہ ’’پہلی بار دنیا کے تمام ملک گیسوں کے اخراج کو ترک کرنے، مسئلے سے نمٹنے کی کاوش کو مضبوط بنانے اور سب کے بھلے کے لیے ایک مشترکہ عمل میں شریک ہونے پر آمادہ ہیں۔ پیرس میں حکومتوں نے یکسو ہو کر مشترکہ عمل پر رضامندی کا اظہار کیا، مل کر ہی کچھ حاصل ہوسکتا ہے، اکیلے قدم اٹھانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا‘‘۔

ایک نیا آغاز


اس سمجھوتے پر 30 دِن کے اندر عمل درآمد شروع ہوگا، جب 55 ممالک یا تو اس کی توثیق کریں گے یا پھر اقوام متحدہ کے سربراہ کے پاس اس پر عمل درآمد کی حکمت عملی پیش کردیں گے۔ یہ 55 ملک ایسے ہیں جو گیسوں کے عالمی اخراج میں کم از کم 55 فی صد کے ذمے دار ہیں۔

ہدف کے حصول کی تاریخ 2020ء ہے، لیکن اگر کافی ممالک اس کی توثیق کردیں گے، تو اہل کاروں کے مطابق، سمجھوتے پر بہت جلد عمل درآمد ممکن ہوگا، اس سال یا 2017ء کے اوائل تک۔

چین اور امریکہ، جو دنیا میں گرین گیس کے اخراج کے 40 فی صد کے ذمہ دار ہیں، تقریب میں اُن کی نمائندگی تھی۔ وہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں، جس کا مقصد معاہدے پر جلد عمل درآمد کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔