اقوام متحدہ نے بدھ کے روز سخت ترین الفاظ میں طالبان کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے ملک کے اندر خواتین کو عالمی ادارے کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ادارے نے اس فیصلے کو غیر قانونی اور ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔
کابل میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کا یہ فیصلہ خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے استثنیٰ و مراعات کے وضع کردہ بین الاقوامی قوانین کے بھی منافی اقدام ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتیرس کے لیے، ایسی کوئی بھی پابندی ناقابل قبول اور صاف بات یہ ہے کہ واضح طور پر ناقابل فہم ہوگی‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایک پریشان کن رجحان کا تازہ ترین واقعہ ہے جو امدادی تنظیموں کی ضرورت مندوں تک پہنچنے کی اہلیت کو کمزور کر رہا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ حالیہ مہینوں میں تشویش کا اظہارکر رہی تھی کہ یہ مخصوص پابندی آئے گی۔
جنوری میں، ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ افغانستان میں کابل، قندھار اور ہرات گئی تھیں تاکہ طالبان حکام سے ان حکم ناموں کے سلسلے کے بارے میں بات کی جا سکے جو خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: مغربی ملکوں کا طالبان سے انسانی بنیادی حقوق کی بحالی اور ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہان میں اسکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی اور گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہ دینا شامل ہے۔جس کے نتیجے میں کچھ امدادی گروپوں نے کام معطل کر دیا ہے۔
24 دسمبر 2022 کو طالبان نے افغان خواتین پر ملکی اور بین الاقوامی امدادی گروپوں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس حکم نامے کے بعد کچھ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے وہاں اپنا کام معطل کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کو اس وقت خدشہ تھا کہ اس کے بعد بین الاقوامی تنظیمیں ہدف بنیں گی، جیسا کہ اب دکھائی دے رہا ہے۔
SEE ALSO: خواتین کے حقوق کے حوالے سے افغانستان دنیا کا جابر ترین ملک ہے: اقوام متحدہدوجارک نے کہ ہم ابھی اس پر غور کر رہے ہیں کہ اس پیش رفت سےافغانستان میں ہمارےآپریشنز پر کیا اثر پڑے گا، اور ہمیں توقع ہےکہ کل کابل میں ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ مزید ملاقاتیں ہوں گی تاکہ مزید وضاحت حاصل کی جا سکے‘‘۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے جسے اس کے مخفف’’ یوناما ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے، اپنے ایک ابتدائی بیان میں اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کے عملے کی خواتین اہل کاروں کو صوبہ ننگرہار میں کام پر آنے سے روکا گیا ہے۔
دجارک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارے کو پابندی کے بارے میں تحریری طور پر مطلع نہیں کیا گیا تھا لیکن اسے ’’مختلف ذرائع کے ذریعے‘‘ بتایا گیا تھا کہ اس حکم کا اطلاق صرف ننگرہار صوبے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر ہوتا ہے۔
SEE ALSO: عالمی انسانی حقوق پر مغرب کا معیار دوہرا ہے: ایمنسٹی انٹرنیشنلتاہم دجارک نے کہا کہ یوناما نے انہیں بتایاہے کہ منگل تک عملے میں شامل افغان خواتین افغانستان کے دیگر حصوں میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہےکہ یہ پابندی ملک بھر میں کب نافذ ہوگی۔
اس اقدام پر طالبان کی جانب سے فوری طور پر کوئی عوامی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔تاہم اقوام متحدہ کے عہدیداروں کو منگل کے روز مطلع کر دیا تھا کہ افغانستان کے اندر اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے والی خواتین پر باپندیوں کا دائرہ بڑھایا جا رہا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے عملے میں تقریباً 4 ہزارارکان ہیں جن میں سے 3 ہزار تین سوکے لگ بھگ افغان شہری ہیں۔ ان میں تقریباً 400 افغان خواتین ہیں اور 200 خواتین کا تعلق مختلف دیگرملکوں سے ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا:
"اقوام متحدہ کی تاریخ میں، کسی اور حکومت نے کبھی بھی خواتین پر صرف اس لیے تنظیم کے لیے کام کرنے پر پابندی لگانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ خواتین ہیں۔ یہ فیصلہ خواتین کے خلاف، اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ایک حملے کی نمائندگی کرتا ہے۔"
بیان میں کہا گیا ہے کہ اوتن بائیفا اقوام متحدہ کے احتجاج کو پہنچانے اور اس حکم کو فوری طور پر واپس لینے کے لیے افغان عہدہ داروں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہیں۔
بین الاقوامی برادری نے طالبان کو ، بنیادی طور پر خواتین کے ساتھ ان کے سلوک کی وجہ سے،افغانستان کے جائز حکمرانوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
SEE ALSO: دوحہ معاہدے نے افغان طالبان کو مضبوط اور امریکہ کے اتحادیوں کو کمزور کیا ہے: امریکہاقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے بدھ کو کہا کہ طالبان کو "خواتین کو، عورتوں کی مدد کرنے پر پابندیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"
"ہم اپنے افغان شراکت داروں کے ساتھ بہت قریب سے کام کر رہے ہیں اور طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں - خواتین کو مٹانے کی ان کی یہ کوشش خوفناک ہے، یہ ناقابل قبول ہے"
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ خواتین کا عملہ ادارے کے لیے اہم ہے۔
دوجارک اور یونامادونوں نے اپنے بیانات میں،افغانستان کی سر زمین پر اقوام متحدہ کی کارروائیوں کو آسانی سے جاری رکھنے کے لیے عملے میں خواتین کی اہمیت کو اجاگر کیاہے۔
(اس خبر کا مواد اسلام آباد سے ایاز گل اور نیویارک سے مارگریٹ بشیر کی رپورٹوں سے لیا گیاہے)