پاکستان کے جنوبی شہر شکار پور میں ایک امام بارگاہ میں ہونے والے بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جب کہ اس واقعے کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
جمعہ کو سندھ کے ضلع شکار پور کے علاقے لکھی در میں پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک خودکش حملہ اور نے امام بارگاہ میں داخل ہو کر وہاں دھماکا کردیا تھا۔
حکام نے مقامی تھانے کے انچارج کو دیگر دو اہلکاروں سمیت فرائض میں غفلت برتنے پر معطل کر دیا ہے جب کہ واقعے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں۔
دہشت گردی کے اس واقعے پر جہاں صوبہ سندھ میں ہفتہ کو یوم سوگ منایا جا رہا ہے وہیں عالمی برادری کی طرف سے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بیان میں شیعہ برادری کی مسجد پر ہوئے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کوششوں میں اضافہ کرے۔
ترجمان کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ مذہبی وابستگی کی بنیاد پر لوگوں کو وحشیانہ انداز میں نشانہ بنائے جانے پر سیکرٹری جنرل نہایت افسردہ ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ "پاکستان میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر اقلیتوں کے تحفظ کو مزید بڑھائیں اور دہشت گردی کی تمام صورتوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کریں۔"
ادھر یورپی یونین نے بھی ایک بیان میں شکار پور کی امام بارگاہ پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے نمٹنے کے لیے پاکستان حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے پرعزم ہے۔
اس سے قبل امریکہ کی طرف سے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی حکومت اور عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو بغیر کسی خوف کے اس کی پیروی کرنے کی مکمل آزادی کی حمایت کرتا ہے۔ "یہ پاکستان اور دنیا بھر میں ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔"
پاکستان کو ایک عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے گزشتہ ماہ ایک قومی لائحہ عمل ترتیب دے کر بھرپور کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔
حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا ردعمل ملک کے مختلف حصوں میں ممکنہ دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔