اقوام متحدہ کے ماہرین کی کابل کی پھانسیوں کی مذمت

فائل

انسانی حقوق کے ماہرین کے لیے، ’’یہ حقیقت کہ یہ پھانسیاں بظاہر 19 اپریل کے المناک حملے کے بدلے میں دی گئیں جب کہ پھانسی دیے جانے والے لوگ اس کے ذمہ دار نہیں تھے، اِس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ سزائیں منصفانہ نہیں تھیں‘‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دو ماہرین نے افغانستان میں غیر قانونی مسلح گروہ کے چھ مبینہ ارکان کو پھانسی دیے جانے کی مذمت کی ہے، جن کے لیے کہا گیا تھا کہ یہ ’’سنگین جرائم اور شہریوں کے خلاف جرائم‘‘ میں ملوث تھے۔

حالانکہ، ماہرین کے مطابق، ’’اُن کے خلاف منصفانہ مقدمہ نہیں چلایا گیا، جب کہ اعترافی بیان اخذ کرنے کے لیے اذیت کے ہتھکنڈے اپنائے گئے‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ اِن چھ افراد کو آٹھ مئی کو کابل میں پلِ چرخی کے قیدخانے میں پھانسی دی گئی، جو کہ فروری 2015ء کے بعد پھانسی کی پہلی سزائیں تھیں، جب کہ غیر سرکاری طور پر حکومت پھانسی کی سزا کے خلاف بتائی جاتی ہے۔

افغان حکام نے اعلان کیا ہے کہ اُنھوں نے اس معاملے کی تفصیلی نظر ثانی کی تھی، تاکہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ موت کی سزا پر عمل درآمد سے پہلے عدالتی ضابطہٴ کار کی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ تاہم، اس نظر ثانی کی تفصیل ظاہر نہیں کی گئی۔

انیس اپریل کو طالبان کا حملہ جس میں 58 شہری ہلاک جب کہ 352 زخمی ہوئے، افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اُن افراد کو معافی نہیں دیں گے جو شہریوں اور مسلح فوج کے اہل کاروں پر حملے کے ذمہ دار ہیں۔

کرسٹوفر ہائنس پھانسوں کی فوری سزاؤں کے معاملے پر اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہیں۔ بقول اُن کے، ’’مقدمے کی نوعیت یا اس پر نظرثانی کی کوئی تفصیل دستیاب نہیں۔ ‘‘

انسانی حقوق کے ماہرین کے لیے، ’’یہ حقیقت کہ یہ پھانسیاں بظاہر 19 اپریل کے المناک حملے کے بدلے میں دی گئیں جب کہ پھانسی دیے جانے والے لوگ اس کے ذمہ دار نہیں تھے، اِس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ سزائیں منصفانہ نہیں تھیں‘‘۔