افغانستان میں کئی مشہور ٹی وی اور ریڈیو چینل چلانے والے ایک میڈیا گروپ نے اعلان کیا ہے کہ طالبان حکام نے انھیں ٹیلی ویژن پر ڈرامہ سیریز نشر کرنے سے روکنے کی ہدایت کی ہے۔
طلوع ٹی وی اور لمر ٹی وی کے مالک موبی گروپ نے جمعرات کو کہا کہ یہ حکم طالبان کی خفیہ ایجنسی سے موصول ہوا ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ یہ حکم طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے جاری کیا ہے۔
گروپ نے کہا کہ وہ حکم کی تعمیل کررہے ہیں اور جمعرات کی رات سےشروع ہونے والی غیر ملکی ڈرامہ سیریز کی نشریات عارضی طور پر بندکررہے ہیں۔
بہت سے افغان گھرانے یہ غیر ملکی ٹی وی سیریز شوق سے دیکھتے ہیں ، جو زیادہ تر بھارت اور ترکی کی ہوتی ہیں۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے ملک میں پریشان حال نجی میڈیا سیکٹر کو مالی طور پر کچھ سہارا ملاہے۔
موبی گروپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں جو بعد میں مٹادی گئی، تجویز پیش کی تھی کہ غیر ملکی ڈرامہ سیریز کی نشریات پرپابندی سمیت تمام دیگر امور پر وزارت اطلاعات وثقافت اور میڈیا تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ کمیشن میں بہتر طریقے سے بات چیت کی جائے اور حکومتی اصولوں کے مطابق حتمی فیصلے کا اعلان وزارت اطلاعات او رثقافت کی طرف سے سرکاری طور پر کیا جائے ۔
اس کے علاوہ طلوع نیوز کے ایک سابق رپورٹر نے کہا ہے کہ ڈرامہ سریز پر پابندی کی خبر آنے کے بعد طالبان حکام نے طلوع نیوز کے تین ملازمین کو کچھ دیر کے لیے حراست میں بھی لیا جن میں چینل کے ڈائریکٹر خپلاو ک صافی بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: کیا افغانستان میں موسیقی دم توڑ دے گی؟طلوع نیوز کے عہدیداروں نےجمعہ کو وی او اے کو بتایا کہ طالبان شام چھ بجے نیوز بلٹن کے فوری بعد طلوع نیوز کے کمپاونڈ میں داخل ہوئے اورنیوز ڈائریکٹر خپلا وک صافی ، چینل کے میزبان بہرام امان اور ایک قانونی مشیر کو اپنےساتھ لے گئے ۔نیوز ڈائریکٹر صافی اور قانونی مشیر کو کچھ گھنٹوں بعد رہا کردیا گیا جبکہ جمعے کے دن بہرام امان کو بھی چھوڑ دیا گیا۔
قبل ازیں اقوام متحدہ اور امریکی سفارتخانے طلوع نیوز کمپاونڈ پر طالبان کے چھاپے کی مذمت کی ہے۔ افغانستان میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے یوناما نےایک ٹویٹ میں تمام افراد کی رہائی،صحافیوں اور آزاد میڈیا کے خلاف دھمکیوں کے خاتمے پر زور دیا ہے۔ امریکی سفارتخانے کےچارج ڈی افیئرز آئن میکیری نے صحافیوں اور میڈیا کے عملےکو حراست میں لینے اور انہیں دھمکیاں دینے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جو ان کے مطابق آزادی اظہار رائے کے لیے طالبان کے وعدوں کی نفی ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں بند کردیں۔
طالبان کی جانب سے افغان صحافیوں کی گرفتاری اور میڈیا پر پابندیوں کی سوشل میڈیا پر مذمت کی جارہی ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس آر ایس ایف اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ سی پی جے نے بھی طلوع نیوزکمپاونڈ پر چھاپے اور میڈیا پر پابندیوں کی سخت مذمت کی ہے۔
گزشتہ پابندیاں
میڈیا تنظیموں کے مطابق طالبان پہلے ہی پریس کی آزادیوں پرسخت قدغنیں لگارہے تھے۔رپورٹرز ود اوٹ بارڈرز نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ میں کہا تھاکہ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے، میڈیا کے دو سو تیس سے زائد ادارے بند ہوچکے ہیں اور ہزاروں صحافی، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں، اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
گزشتہ سات ماہ کے دوران سینکڑوں افغان صحافی ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔موبی گروپ ، جس کو سابق افغان حکومت کے اچانک خاتمے سے پہلے امریکہ سے فنڈ نگ حاصل ہو ئی تھی، اسے اپنے بیشتر صحافیوں اورعملے کے دیگر افراد کو افغانستان سے نکالنے میں بھی امریکہ سے مدد ملی تھی۔
طالبان کی امارت اسلامیہ نے سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خواتین صحافیوں اور میزبانوں کے آنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے سات مارچ کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان حکام نے ضلعی اور صوبائی مراکز میں افغان میڈیا کے خلاف سخت سنسر شسپ عائد کی ہوئی ہے اور صحافیوں پرتشدد کرتے ہیں جس سے افغانستان میں تنقیدی رپورٹنگ کافی حد تک محدود ہوگئی ہیں۔
تاہم طالبان کے ترجمانوں نے میڈیا سنسر شپ کی مسلسل تردید کی ہے اور ان دعووں کو مسترد کیا ہے کہ وہ افغان صحافیوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگارہے ہیں۔