|
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر رفح میں خوراک کے ذخیرے کی کمی اور تحفظ کے فقدان کی وجہ سے خوراک کی تقسیم روک دی ہے۔
عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ نے انسانی امداد غزہ میں لانے کے لیے ساحل پر جو عارضی بندرگاہ قائم کی ہے، گزشتہ دو دنوں کے دوران وہاں سے بھی امدادی سامان کا کوئی ٹرک نہیں آیا۔
اقوام متحدہ نے یہ تو نہیں بتایا کہ رفح پر 6 مئی کو اسرائیلی فوج کے بڑے حملے کے بعد سے وہاں کتنے فلسطینی مقیم ہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق ان افراد کی تعداد اب بھی لاکھوں میں ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ترجمان عبیر عطیفہ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر خوراک اور انسانی امداد کے سامان کی بڑے پیمانے پر غزہ میں فراہمی شروع نہ ہوئی تو غزہ میں امدادی پروگرام بند ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ خوراک کی تقسیم بند ہونے سے قحط جیسی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
عالمی ادارے کی جانب سے یہ انتباہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے عدالت سے اسرائیلی اور حماس کے اعلیٰ رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔ جب کہ فرانس سمیت یورپ کے تین ممالک نے بھی پراسیکیوٹر کی اس درخواست کی حمایت کی ہے، اہم بات یہ ہے کہ فرانس کو اسرائیل کے اہم اتحادی ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
پراسیکیوٹر کریم خان نے وزیراعظم نتین یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کے لیڈروں اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور محمد دیاف پر جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگ کے ایک حربے کے طور پر قحط کی صورت حال پیدا کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ، عالمی امدادی اداروں اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملکوں کی اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے 6 مئی کو رفح پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے اپنے عزم پر قائم ہے اور باقی ماندہ عسکریت پسند اب رفح میں چھپے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں میں اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے تقریباً 15 لاکھ فلسطینیوں نے رفح میں پناہ لے رکھی تھی۔
انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ رفح پر اسرائیلی حملوں سے علاقے میں انسانی امداد کا بحران بڑھ گیا ہے کیونکہ اسرائیلی فورسز نے غزہ کی پٹی کو مصر سے ملانے والی سرحدی کراسنگ پر قبضہ کر لیا ہے، جو امداد داخل ہونے کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ تب سے رفح کراسنگ کے راستے خوراک لانے والے قافلوں کی آمد بند ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 10 مئی تک اسرائیل کی قریبی سرحدی گزرگاہ کرم شالوم سے صرف تین درجن امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے امدادی سامان کی آمد بند ہے، کیونکہ لڑائی کی وجہ سے امدادی کارکنوں کی نقل و حرکت مشکل ہو چکی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کو خوراک اور امداد فراہم کرنے والے مرکزی عالمی ادارے یواین آر ڈبلیو اے نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں رفح میں خوراک کی تقسیم روکنے کا اعلان کیا ہے، تاہم اس پوسٹ میں بندش کی وجہ نہیں بتائی گئی۔
ترجمان عطیفہ نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ خوراک نے اپنا اسٹاک ختم ہونے کے بعد رفح میں خوراک کی تقسیم روک دی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وسطی غزہ میں گرم کھانے اور کھانوں کے پیکٹوں کی محدود تقسیم جاری ہے، لیکن اس کا اسٹاک بھی چند دن میں ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ جمعے کے روز امریکہ کی قائم کردہ عارضی بندرگاہ سے 10 ٹرکوں میں امدادی سامان آیا تھا جسے وسطی غزہ کے گودام میں رکھ دیا گیا ہے۔ہفتے کے روز مزید 11 ٹرک آئے جن میں سے چھ ٹرکوں کا سامان فلسطینیوں نے راستے میں ہی لوٹ لیا اور صرف پانچ ٹرک گودام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد سے کوئی نئی رسد نہیں آئی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں گیارہ لاکھ افراد کو، جو کل تعداد کا تقریباً نصف ہیں، خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ علاقہ قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔
وسطی اور شمالی غزہ میں اسرائیلی فورسز کے حملوں سے بچنے کے لیے تقریباٍ 13 لاکھ فلسطینیوں نے رفح میں پناہ لی تھی۔ اور اب جب کہ اسرائیل رفح میں فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔ وہاں سے 8 لاکھ سے زیادہ لوگ بھاگ کر دوبارہ غزہ میں آ گئے ہیں اور جگہ جگہ اپنے خیمے لگا رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ شمالی غزہ میں بہت سے لوگ اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لے رہے ہیں، جنہیں جنگ کے دوران فضائی اور زمینی حملوں سے پہلے ہی بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)