رسائی کے لنکس

طالبان کا مشاعرہ: ’حکومت شاعری سے لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے‘


  • طالبان حکومت فنونِ لطیفہ میں صرف شاعری کی اجازت دیتی ہے لیکن اس کے لیے بھی حدود مقرر ہیں۔
  • مبصری کا کہنا ہے کہ طالبان شاعری کی قدیم روایت کو لوگوں کا دل جیتنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
  • شعرا نے طالبان کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے: افغان شاعر

طالبان شعرا جو کبھی غیر ملکی طاقتوں کے مقابلے کے لیے پُر جوش جہادی نغمے لکھتے تھے اب انہیں افغانستان پر حکمرانی کرنے والوں کے قصیدے لکھنا پڑ رہے ہیں۔

افغانستان کے صوبے پروان میں حکومت نے ایک ایسے مشاعرہ منعقد کرایا ہے جہاں شعر کہنے والے طالبان جمع ہوئے ہیں اور اپنی حکومت کی قوت اور کامیابیوں کے گیت پیش کر رہے ہیں۔ پروان وہی صوبہ ہے جہاں بگرام ہوئی اڈہ تھا جو کبھی افغانستان میں امریکی عسکری قوت کا مرکز تھا۔

مشاعرے میں شریک 22 سالہ سمیع اللہ کا کہنا ہے: ’’یہ پاکیزہ نظام ہے، یہ ہماری فتح ہے۔ ہمیں اسلامی نظام کی چھت تلے متحد ہو کر رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کی جانب بھائی چارے کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔‘‘

ان کے مطابق:’’ہم اپنی شاعری کے ذریعے یہی پیغام پہنچا رہے ہیں۔‘‘

طالبان حکومت کے تین برس مکمل ہونے والے ہیں اور مبصرین کے مطابق وہ افغانستان کے چار کروڑ عوام پر اپنے نظریات اور افکار لاگو کرنے کی جستجو کر رہے ہیں۔

فنونِ لطیفہ میں سے صرف شاعری ہی ایسا فن ہے جس پر طالبان حکومت نے کوئی قدغن نہیں لگائی۔ شرط یہ ہے کہ شعر ان کے متعین کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں تبھی وہ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک سے وابستہ رخسانہ شاہپور کا کہنا ہے کہ مشاعرے منعقد کرکے طالبان حکومت ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ کوشش دراصل ان کے اپنے اس بیان کو سچ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’افغانستان سب افغانوں کے لیے ہے۔‘‘

ان کے نزدیک شاعری کے ذریعے طالبان سب کو ایک متفقہ نقطے پر لانا چاہتے ہیں۔

اپنے پش رو حکمرانوں کی طرح طالبان حکام بھی شعروشاعری کے ذریعے عوام کے ’دل و دماغ‘جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طالبان نے اسلام کی اپنی سخت گیر تعبیر کے مطابق موسیقی پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ میڈیا پر کئی پابندیاں ہیں اور عوامی مقامات پر لگی ہورڈنگز پر انسانی چہروں کو کھرچ دیا گیا ہے۔

افغانستان کی نوزائیدہ فلم اور ٹی وی انڈسٹری دم توڑ رہی ہے۔ ڈراموں پر پابندیاں ہیں اور زیادہ تر سنیما بند پڑے ہیں۔ اگر ان کے دروازے کھلتے بھی ہیں تو طالبان حکومت کی منظور شدہ دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔

شاعری کے ذریعے مہم

سال 2012 میں دو مغربی صحافیوں فیلکس کوہن اور ایلکس اسٹرک لنسکوہٹن نے طالبان جنگ جوؤں کی شاعری کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا تھا جس میں 235 نظمیں شامل تھیں۔

اس کتاب کے دیباچے میں انہوں تاریخ داں فیصل دیو جی نے لکھا تھا: ’’طالبان کی شاعری یں فارسی اور اردو کی قدیم شعری روایات کی جھلک نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ یہ افغانستان کی حالیہ تاریخ کے حوالوں اور لیجنڈز کے تذکرے سے بھرپور نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں عشقِ ناتمام، روایتی رقیب، لب و رخسار اور حسن و عشق کے مضامین بھی ملتے ہیں۔‘‘

ان نظموں میں جنگی نغمے بھی شامل تھے اور فراق و ہجر کے جذبات کو بھی شاعری میں ڈھالا گیا تھا۔ محققین کے مطابق اپنی پسپائی کے دور میں طالبان کی یہ شاعری ان کے ریڈیو چینلز پر نشر ہوتی رہی اور لٹریچر میں شائع کی گئی جس نے اس فعال بنانے میں کردار ادا کیا۔

افغان شاعر محمد عالم بسمل۔
افغان شاعر محمد عالم بسمل۔

ایک معروم افغان شاعر محمد عالم بسمل بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعرا نے طالبان کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان سے وابستہ شعرا کا کلام ان کے اپنے حلقوں سے باہر بھی سنا اور پسند کیا جاتا تھا۔

بسمل کا کہنا ہے کہ جب جنگ جاری تھی تو شاعری میں جوش و جذبہ بھی زیادہ تھا لیکن اب ماحول تبدیل ہوچکا ہے۔

ان کے مطابق:’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ بہترین شاعری گھٹن کے ماحول میں ہوتی ہے۔‘‘

پروان صوبے کے اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر شمس الحق صدیقی کہتے ہیں کہ شعرا اب پُرامن ماحول میں جمع ہوکر اپنا کلام سنا رہے ہیں جو قومی بھائی چارے، محبت اور اتحاد کے بارے میں ہے۔

ایک جانب اگر طالبان شعر پروری کر رہے ہیں تو دوسری طرف اب بھی خواتین اور لڑکیوں پر ثانوی تعلیم اور یونیورسٹیز جانے پر پابنی ہے۔ خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہیں اور ساتھ ساتھ چلنے کا یہ پیغام صنفی حدود عبور نہیں کرسکا ہے اور خواتین پر اس کے دروازے بند ہے۔

’انہیں شعر پڑھتے دیکھ کر غصہ آتا ہے‘

صوبہ پروان میں مشاعرہ موسمِ بہار کے آغاز میں ہوا۔ اس وقت انتخاب اس افغان روایت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا جس میں شعرار درختِ ارغوان پر کھلنے والے جامنی پھولوں کی خوشی میں جمع ہو کر شعر سناتے ہیں۔ یہ پھول کھلتے بھی چند ہی ہفتے کے لیے ہیں۔

مرد شعرا کو تو ان پھولوں پر سخن آرائی کرنے اور باغات میں سیر کی اجازت ہے لیکن طالبان کی ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے محکمے اہل کار پارکوں میں خواتین کو آنے سے روکنے پر مامور ہیں۔

ایک افغان شاعرہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھروں میں محدود ہیں اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احتجاج کے لیے قلم اٹھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ طالبان کو شعر سناتے دیکھتی ہے تو انہیں بہت غصہ آتا ہے۔

شاعرہ کا کہنا ہے: ’’وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ یا تو ہمیں بھی شعر کہنے اور ان شائع کرانے کی اجازت دیں یا خود بھی اس سے باز رہیں۔‘‘

یہ شاعرہ حکومت کے خوف کی وجہ سے اپنے شعروں پر اپنا نام نہیں دیتیں لیکن ان کی بہت سے شعر واٹس اپ پر گردش کرتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے جب وہ اپنے دوستوں کو شعر سناتی ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی درد سے نجات مل گئی ہے۔ ایسا سکون ملتا ہے جیسے وہ کسی بلند پہاڑی پر موجود ہوں۔

اس تحریر کا زیادہ تر مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG