اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس ہفتے ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جائے گا۔ یہ قرار داد اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے پیش کی گئی جنرل اسمبلی میں اسے پاکستان نے متعارف کرایا تھا۔ اس قرارداد کو او آئی سی کے 57 اور دیگر 8 ملکوں کی حمایت بھی حاصل تھی جن میں چین اور روس بھی شامل ہیں۔
تاہم بھارت، فرانس اور یورپی یونین کے نمائندوں نے اس پر یہ کہتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ مذہبی عدم برداشت ساری دنیا میں پائی جاتی ہے، جب کہ اس قرارداد میں صرف اسلام کی بات کی گئی ہے۔
ادھر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس قرارداد کی منظوری کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
اس قرارداد کی منظوری سے کیا واقعی کوئی فرق پڑے گا یا یہ محض ایک علامتی قرارداد ہے اور اس پر تحفظات کا اظہار کیوں کیا گیا ہے۔ اس بارے میں تجزیہ کاروں کی آراء میں تنوع ہے۔
شمشاد احمد خان پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب رہ چکے ہیں۔ قرارداد اور اس کی حیثیت کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ بذات خود ایک علامتی سا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس تنظیم کو بنی نوع انسان کی امن اور خوشحالی کے لیے آخری بہترین امید کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ لیکن بطور مجموعی وہ ان توقعات پر پوری نہیں اتری جو اس سے وابستہ کی گئی تھیں۔ لیکن وہ اپنے طور پر کوششیں جاری رکھتی ہے اور اسلامو فوبیا سے متعلق اس قرارداد کی منظوری بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔
SEE ALSO: جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد کی منظوری، بھارت نے اعتراض اٹھا دیاشمشاد احمد خان کا کہنا تھا اس قرارداد کا اور اس قسم کے دوسرے اقدامات کا بنیادی مقصد اسلام کے بارے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود غلط تصورات کو درست کرنا ہے۔ بقول ان کے ہاکستان کے وزیر اعظم روایتی قسم کے سیاست دان نہیں ہیں اور وہ ملک کے اندرونی معاملات کے علاوہ اسلام کے لیے، اسلامی دنیا کے لیے کچھ کرنے کے خواہاں ہیں۔ اور انہی کی کوششوں سےاو آئی سی میں یہ قرارداد تیار ہوئی جسے پاکستان نے پیش کیا اور اقوام متحدہ نے منظور کیا۔ اس پر عمل اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہر سال اس دن کو منایا جائے۔ لیکن عام آدمی کے ذہن میں کسی بھی چیز کے بارے میں جو غلط تصورات بیٹھ جاتے ہیں یا بٹھا دیے جاتے ہیں انہیں طاقت سے درست نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس قسم کے علامتی اقدامات اور تعلیم کے ذریعے ہی انہیں درست کیا جاسکتا ہے، جن سے بین المذاہب ہم آہُنگی کا جذبہ اور احساس پیدا کیا جاسکے اور یہ کام بتدریج ہی ہو سکتا ہے۔
بھارت، فرانس اور یورپی یونین کے نمائندوں کے تحفظات
اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس ترمرتی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد ہندو فوبیا اور دیگر مذاہب سے متعلق عدم برداشت کو بیان نہیں کرتی۔ بھارتی تجزیہ کار ڈاکٹر راونی ٹھاکر کا، جو دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں، کہنا ہے کہ ہندو فوبیا انہیں تو کہیں نظر نہیں آتا۔ البتہ اسلامو فوبیا تھوڑا تھوڑا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر راونی ٹھاکر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس وقت جو بھارتی حکومت ہے اس کی آئیڈیالوجی بہت واضح ہے۔ وہ شروع ہی سے ہندتوا پر یقین رکھتے ہیں اور اسلام کو ایک بیرونی دھرم قرار دیتے ہیں ۔ یہی ان کے اعتراض کا سبب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو مذہب کو اپنی خارجہ پالیسی کے مسائل سے الگ رکھنا چاہیے۔ کیونکہ بھارت کے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے ساتھ گہرے رشتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی لیبر ان ملکوں میں کام کرتی ہے۔ اس لیے بھارت کو مذہب کو خارجہ پالیسی سے ہر صورت میں الگ رکھنا چاہیے ورنہ اسے نقصان ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر زبیر اقبال واشنگٹن کے مڈ ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار دادوں پر عمل درآمد کے لیے سلامتی کونسل میں جانا پڑتا ہے۔ جہاں کئی ملکوں کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ جو مجوزہ ایکشن کی درخواست کو ویٹو کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان کے خیال میں اس قرارداد کی منظوری کا بڑا مقصد یہ کہ اسلامو فوبیا کے مسئلے کو پس پشت نہ ڈال دیا جائے، بلکہ اس مسئلے کو زندہ رکھا جائے اور درستگی کے لیے کوشش کی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہندوستان اور فرانس سمیت جن ممالک نے اس قرار داد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، وہ انہوں نے اپنے اندرون ملک سیاسی تقاضوں کے تحت کیا ہے۔ روس اور چین کی جانب سے اس قرارداد کی حمایت کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ اول تو ان دونوں ملکوں میں مسلم آبادی خاصی ہے، جس کی وہ حمایت حاصل رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ دونوں افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطٰی کے مسلمان ملکوں کے ساتھ اپنےاچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں خاص طور سے روس، یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں ان تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس لیے ان دونوں ملکوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کا الزام ہے کہ چین اپنے یہاں مقیم دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھ رہا ہے جہاں ان سے پر تشدد کیا جاتا ہے، ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل سے روکا جاتا ہے۔ چین ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
خود پاکستان میں احمدیہ برادری کے خلاف شدید تعصب پایا جاتا ہے۔ آئے دن ان کو نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی صورت حال پر اکثر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
اسلامو فوبیا کیا ہے
مذہب اسلام اور عمومی طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب یا اس مذہب اور اس کے پیروکاروں سے بعض لوگوں میں پائے جانے والے خوف کے لیے اسلامو فوبیا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم اس کی در حقیقت تعریف کیا ہے، یہ الگ بحث کا موضوع ہے۔
اسلامو فوبیا دو الفاظ کا مرکب ہے اسلام اور فوبیا۔ لفظ فوبیا یونانی اصطلاح ہے۔جس کے انگریزی میں معنی ہیں کسی چیز کے خوف میں مبتلا ہونا، اسلامو فوبیا یعنی اسلام کا خوف۔