جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں منعقد ہونے والے سہ روزہ مذاکرات جن کا مقصد یمن کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اہم بات چیت کا دوبارہ اجرا تھا، بے نتیجہ رہے، چونکہ مذاکرات کا ایک اہم فریق اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن، مارٹن گرفتھس نے ناکام بات چیت کے بارے میں مایوسی کا اظہار نہیں کیا، یہ کہتے ہوئے کہ سودمند مباحثے کا آغاز ہوگیا ہے۔ حالانکہ بات چیت میں اُن کے علاوہ یمنی حکومت کا وفد موجود تھا۔
اُنھوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ باغی حوثیوں کا وفد، جسے سرکاری طور پر 'انصار اللہ' کے نام سے جانا جاتا ہے، شامل نہیں ہوا۔ لیکن، کہا کہ تنازعے میں ملوث فریق کے لیے یہ بات غیرمعمولی نہیں، جب کہ ایسے مذاکرات میں اس قسم کی مشکلات درپیش آتی ہیں۔
بقول اُن کے، ''لیکن، ہاں کمرے میں موجود بڑا ہاتھی، 'انصارالل'ہ کے وفد کو لانے میں ناکام رہا، جو وفد صنعا سے یہاں آنا تھا۔ اور اِن دِنوں کے دوران ہم بات چیت، مذاکرات اور تیاریوں میں مصروف رہے آیا 'آپشنز' اور 'متبادل راہیں' کون سی ہوسکتی ہیں۔۔۔، اس لیے، میں اس عمل میں بنیادی طور پر کسی رکاوٹ کو حائل نہیں دیکھتا''۔
گرفتھس نے جینوا مذاکرات میں شرکت کے لیے حوثیوں کی جانب سے پیش کردہ مطالبوں کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم، حوثیوں کے ایک چوٹی کے اہلکار نے کہا ہے کہ اُن کے گروپ نے شرکت کے لیے کچھ شرائط رکھی تھیں، جن میں یہ یقین دہانی کرانا بھی شامل تھا کہ انہیں یمن واپسی کی ضمانت دی جائے گی، اور علاج کے لیے لڑائی میں اپنے زخمیوں کے انخلا کی اجازت ہو گی۔
یمن کے امور خارجہ کے وزیر، خالد الیمنی نے خصوصی ایلچی کے الفاظ پر نکتہ چینی کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اُنھوں نے بہت زیادہ نرمی دکھائی۔ اُنھوں نے حوثیوں کی عدم موجودگی کے بارے میں عذر کو بلاجواز قرار دیا۔
یمنی نے کہا کہ ''یہ تباہ کُن گروہ جو خصوصی ایلچی سے بین الاقوامی قانون یا اپنے عہد کی پابندی کی پرواہ نہیں کرتا، وہ امن کی راہ پر اور بین الاقوامی قراردادوں پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں لگتا''۔
سعودی حمایت والی یمن کی حکومت اور ایران کی پشت پناہی والے حوثی باغیوں کے درمیان تین سال سے جاری خانہ جنگی میں 16000 سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ آنے والی تباہ کاری کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے یمن کے تنازع کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
گرفتھس نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ بات چیت کا اگلا دور کب ہوگا۔