اقوام متحدہ کی جانب سے اِس ہفتے جاری ہونے والی ایک مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 15 برسوں کے دوران بیرونِ ملک ترکِ وطن کرنے والوں کی تعداد میں 41 فی صد شرح سے اضافہ آیا، جو 2015ء میں 24 کروڑ اور 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔
اِن میں سے دو کروڑ مہاجرین ہیں۔
اس معاملے پر 2016ء کے دوران اقوام متحدہ اجلاسوں کا ایک سلسلہ جاری کرے گی، جس سلسلے کی ایک ملاقات 30 مارچ کو جنیوا میں ہوگی، جہاں رکن ممالک کو مدعو کیا جائے گا، تاکہ شام کی خانہ جنگی کے باعث جان بچا کر نکلنے والوں کی آبادکاری کے مقامات سے متعلق منصوبے تیار کیے جائیں۔
تاہم، ایسے میں جب شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کا معاملہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، بین الاقوامی ہجرت کی رفتار کو دیکھتے ہوئے، یہ سمندر میں قطرے کی مانند ہے۔
اِن میں سے لوگوں کی اکثریت یورپ جارہی ہے، جہاں سال 2015ء میں بین الاقوامی مہاجرین کی تعداد سات کروڑ 60 لاکھ تھی، جو کُل تعداد کی دو تہائی کے برابر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ترکِ وطن نہ ہوتا تو 2000 سے 2015ء کے دوران، یورپ کی آبادی اگلے 35 برسوں کے دوران تیزی سےگھٹ جاتی، کیونکہ بچوں کی پیدائش کے مقابلے میں اموات کی تعداد زیادہ ہے۔
تاہم، انفرادی ملک کے اعتبار سے مقابلتاً امریکہ کی آبادی زیادہ ہے، جہاں دنیا کے چار کروڑ اور 70 لاکھ پناہ گزیں آچکے ہیں، جو مجموعی تعداد کا پانچواں حصہ ہے۔
جرمنی اور روس دوسرے نمبر پر ہیں، جہاں ایک کروڑ اور 20 لاکھ لوگ آئے، جس کے بعد سعودی عرب، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے، جہاں، بالترتیب، ایک کروڑ، 90 لاکھ اور 80 لاکھ تارکین وطن آئے۔
اس حوالے سے، کینیڈا کا درجہ ساتویں نمبر پر آتا ہے، جہاں 80 لاکھ سے کم تارکین وطن آکر آباد ہوئے۔