شام میں تعینات اقوامِ متحدہ کے مبصرین پیر کو اپنا مشن مکمل کرکے شام سے واپس روانہ ہورہے ہیں۔
شام میں تعینات اقوامِ متحدہ کے مبصرین پیر کو اپنا مشن مکمل کرکے شام سے واپس روانہ ہورہے ہیں۔
یاد رہے کہ مبصر مشن کی مدت اتوار کو مکمل ہوگئی تھی اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے اپنے اجلاس میں مشن کی مدت میں مزید توسیع کرنے کے بجائے شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مشن کے تحت شام میں ایک وقت میں 300 تک بین الاقوامی مبصرین نے خدمات انجام دیں جن کے ذمے رواں برس اپریل میں شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کی قوتوں کے مابین طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنا تھا۔
مذکورہ جنگ بندی شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے سابق ایلچی کوفی عنان کے تجویز کردہ چھ نکاتی امن منصوبے کا حصہ تھی تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔
معاہدے کے بعد فریقین کے مابین اختلافات اور مسلح جھڑپیں اس حد تک شدت اختیار کرگئی تھیں کہ خود بین الاقوامی مبصرین کے لیے باحفاظت اور موثر انداز میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی ممکن نہیں رہی تھی۔
پرتشدد کاروائیوں کے دوران میں مبصر مشن کی گاڑیاں کئی بار بم دھماکوں کا نشانہ بنیں تاہم خوش قسمتی سے مشن کے ارکان کسی جانی نقصان سے محفوظ رہے تھے۔
بعد ازاں مشن کے سربراہ اور ناروے کی مسلح افواج کے جنرل رابرٹ موڈ نے پرتشدد واقعات میں تیزی آنے کے بعد جون میں مبصر مشن کی بیشتر سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق دارالحکومت دمشق میں موجود عالمی ادارے کے بیشتر مبصرین پیر کو شام سے لبنان منتقل ہوجائیں گےجب کہ مشن کا کچھ عملہ شام ہی میں موجود رہ کر سیاسی رابطوں کی ذمہ داریاں انجام دے گا۔
پرتشدد واقعات جاری
دریں اثنا شامی حکومت کے مخالفین نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری افواج کی جانب سے باغیوں کے زیرِ قبضہ دمشق کے 'مدحامیہ' نامی نواحی علاقے پر پیر کو مزید بمباری کی گئی ۔
حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ دارعا، دیر الزور، حمص اور حلب کے شہروں اور ان کے گرد و نواح میں بھی سرکاری افواج کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
یاد رہے کہ مبصر مشن کی مدت اتوار کو مکمل ہوگئی تھی اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے اپنے اجلاس میں مشن کی مدت میں مزید توسیع کرنے کے بجائے شام کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مشن کے تحت شام میں ایک وقت میں 300 تک بین الاقوامی مبصرین نے خدمات انجام دیں جن کے ذمے رواں برس اپریل میں شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کی قوتوں کے مابین طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنا تھا۔
مذکورہ جنگ بندی شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے سابق ایلچی کوفی عنان کے تجویز کردہ چھ نکاتی امن منصوبے کا حصہ تھی تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔
معاہدے کے بعد فریقین کے مابین اختلافات اور مسلح جھڑپیں اس حد تک شدت اختیار کرگئی تھیں کہ خود بین الاقوامی مبصرین کے لیے باحفاظت اور موثر انداز میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی ممکن نہیں رہی تھی۔
پرتشدد کاروائیوں کے دوران میں مبصر مشن کی گاڑیاں کئی بار بم دھماکوں کا نشانہ بنیں تاہم خوش قسمتی سے مشن کے ارکان کسی جانی نقصان سے محفوظ رہے تھے۔
بعد ازاں مشن کے سربراہ اور ناروے کی مسلح افواج کے جنرل رابرٹ موڈ نے پرتشدد واقعات میں تیزی آنے کے بعد جون میں مبصر مشن کی بیشتر سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق دارالحکومت دمشق میں موجود عالمی ادارے کے بیشتر مبصرین پیر کو شام سے لبنان منتقل ہوجائیں گےجب کہ مشن کا کچھ عملہ شام ہی میں موجود رہ کر سیاسی رابطوں کی ذمہ داریاں انجام دے گا۔
پرتشدد واقعات جاری
دریں اثنا شامی حکومت کے مخالفین نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری افواج کی جانب سے باغیوں کے زیرِ قبضہ دمشق کے 'مدحامیہ' نامی نواحی علاقے پر پیر کو مزید بمباری کی گئی ۔
حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ دارعا، دیر الزور، حمص اور حلب کے شہروں اور ان کے گرد و نواح میں بھی سرکاری افواج کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔