اقوام متحدہ کے عالمی آبادی کے تازہ ترین تخمینے کے مطابق نومبرتک کرہ ارض پر 8 ارب افراد ہوں گے اور یہ کہ آبادی بتدریج بڑھ کر 2050 تک 8.5ارب اور 2080 تک 10 ارب سے زیادہ ہو جائے گی۔ یہ اضافہ اہم اقتصادی اور ماحولیاتی اثرات کے ساتھ لے کر آئے گا۔
متوقع نمو پوری دنیا میں یکساں طور پر نہیں ہوئی ہے۔ مشرقی اورجنوب مشرقی ایشیا سمیت کچھ خطوں کی آبادی کے سکڑ جانے کی توقع ہے، جبکہ شمالی امریکہ اوریورپ میں بہت کم شرح پراضافے کی توقع ہے۔ آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ سب صحارا افریقہ اوروسطی اورجنوبی ایشیا میں ہو گا۔
8 ارب کی حد کو عبورکرنے کا یہ اضافہ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ عالمی سطح پر آبادی 1950 کی دہائی کے بعد سب سے سست رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت کل آبادی میں سے دو تہائی ایسے خطوں میں رہتے ہیں جہاں تولید کی شرح، ایک عورت کی پیدائش کے حساب سے جانچی جاتی ہےجو 2.1 کی شرح سے نیچے گر گئی ہے۔ بہت سے معاملات میں، اس گرتی ہوئی شرح کی وجہ حکومتی پالیسیاں رہی ہیں۔
سب سے زیادہ اضافہ آٹھ ملکوں میں متوقع ہے، جن میں جمہوری جمہوریہ کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائیجیریا، پاکستان، فلپائن اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وہ ممالک جو مجموعی آبادی کے حوالے سے کام کرنے کی عمر کے لوگوں کی تعداد میں اضافے کے متمنی ہیں، انہیں چاہیے کہ انسانی وسائل کی تشکیل میں سرمایہ کاری کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں"۔اسی طرح ممکنہ فوائد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم اورصحت، صنفی مساوات کی طرف پیش رفت اورفائدہ مند روزگار کی دستیابی میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔"
عمر رسیدہ کرّہ ارض
سب صحارا افریقہ کے ممالک کے برعکس، مجموعی طور پرکرہ ارض کی آبادی عمر رسیدہ ہو رہی ہے۔ 1980 اور 2022 کے درمیان، 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد تین گنا بڑھ کر 77 کروڑدس لاکھ ہو گئی اور2030 تک 99 کروڑ 40 لاکھ اور2050 تک 1.6 ارب تک پہنچنچ جانے کا امکان ہے۔
کچھ علاقوں میں دوسروں کے مقابلے میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2050 تک، مشرقی اورجنوب مشرقی ایشیاء میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی شرح 13 فیصد سے دوگنی ہو کر26 فیصد ہو جائے گی۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں اس وقت تقریباً 19فی صد آبادی 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہے، اور یہ تناسب 2050 تک بڑھ کر تقریباً 27فی صد ہونے کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ نے زور دیا کہ "عمررسیدہ آبادی والے ممالک کو اپنےعوامی پروگراموں کو بوڑھے افراد کے بڑھتے ہوئے تناسب کے مطابق ڈھالنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، جن میں سماجی تحفظ اور پنشن کے نظام، عالمی صحت کی دیکھ بھال اور طویل مدتی نگہداشت کے نظام کا قیام شامل ہے۔"
بھارت سب سے زیادہ آبادی والا ہو گا۔
چین اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی آبادی 1.43 ارب ہے، لیکن اس میں اگلے سال تک تبدیلی آنے کی امید ہے۔ چین کی آبادی درحقیقت اس سال سکڑنا شروع ہونے کی توقع ہے، کیونکہ کئی دہائیوں سے کم شرح پیدائش نے آبادی کی رفتار کو روکا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی آبادی اس وقت 1.41 ارب ہے، اس لیے آنے والے برسوں میں بھارت آبادی کے لحاظ سے چین سے آگے نکل جائے گا۔
2050 تک توقع ہے کہ بھارت 1.67ارب کے ساتھ سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہو گا، اس کے بعد چین ہوگا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اس وقت 33 کروڑ70 لاکھ افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، یہ اس پوزیشن کو برقرار رکھے گا، کیونکہ آبادی معمولی طور پر بڑھ کر37کروڑ50 لاکھ کے لگ بھگ ہو جائے گی۔
تاہم، نائیجیریا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فی الحال، 21کروڑ 60لاکھ باشندوں والے ملک کی آبادی 2050 تک بڑھ کر 37 کروڑ 50 لاکھ ہونے کی توقع ہے۔ اس طرح یہ آبادی کے اعتبار سے امریکہ کے برابر آسکتا ہے
پاکستان جو اس وقت 23 کروڑ 40 لاکھ آبادی کے ساتھ پانچواں بڑا ملک ہے، اس درجہ کو برقرار رکھے گا، جبکہ اس کی آبادی بڑھ کر 36کروڑ 60 لاکھ ہو جائے گی۔
ماحولیاتی چیلنج
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیسے جیسے عالمی آبادی میں اضافہ جاری ہے، اس سے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ممکنہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ فضا میں زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج ہو رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق "آبادی میں اضافہ خود ماحولیاتی نقصان کا براہ راست سبب نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ مسئلے کو مزید سنگین بنا سکتا ہے یا اس کے ظاہر ہونے کے وقت کو تیز کر سکتا ہے، تاہم اس کا انحصارزیرغورٹائم فریم، دستیاب ٹیکنالوجی، آبادیاتی، سماجی اوراقتصادی حالات پر منحصر ہے۔ اس رپورٹ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ "سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو بوجھ اٹھانا چاہیے۔ جب کہ تمام ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، ان میں بڑا حصّہ ترقی یافتہ ممالک کا ہونا چاہیے، جن کے مادی وسائل کی فی کس کھپت عام طور پرسب سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر انسانی معاشی سرگرمیوں کو ماحولیاتی انحطاط سے دوگنا کرنے کے لیے حکمت عملی کو نافذ کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔"