اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ پیر کو شمالی افغانستان میں طالبان کے زیر قبضہ شہر قندوز میں افغان فضائیہ کی کارروائی میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی پریشان کن خبروں کی تحقیقات کررہی ہے۔
مقامی لوگوں نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ افغان فضائیہ نے ایک مدرسے پر بمباری کی تھی اور آج انہوں نے بچوں سمیت درجنوں افراد کے جنازے میں شرکت کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق 50 سے زیادہ افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کو لڑائی کی زد میں آنے سے بچائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں شہریوں کو پہنچنے والے شديد نقصان کی خبریں پریشان کن ہیں اور موقع پر موجود انسانی حقوق کی ٹیم حقائق معلوم کررہی ہے۔
افغان وزارت دفاع کے حکام نے حملے میں شہری ہلاکتوں کی ترديد کی ہے۔ اس کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغان فضائیہ نے دشمن کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا جس میں 18 طالبان کمانڈر اور دوسرے لوگ مارے گئے جن میں غیر ملکی بھی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جاسوس طیاروں کی پروازوں سے معلوم ہوا تھا کہ وہ احاطہ طالبان کا تربیتی مرکز تھا جس کے بعد فوجی ہیلی کاپٹروں نے کارروائی کی۔ حملے کے وقت وہاں طالبان کے کمانڈروں اور جنگجوؤں کا اجلاس جاری تھا۔
وزارت دفاع کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے فوجی ہیلی کاپٹروں پر طیارہ شکن اسلحے سے فائرنگ کی اور بعد میں جان بوجھ کر عام شہریوں پر گولیاں برسائیں۔
اسپتال لائے گئے افراد کے زخموں سے پتا چلتا ہے کہ وہ فضائی حملے میں زخمی نہیں ہوئے بلکہ انہیں زمین پر گولیاں ماری گئیں۔
ایک طالبان ترجمان نے افغان فوج کے دعوے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس مقام پر طالبان موجود نہیں تھے اور حملے میں نشانہ بننے والے بیشتر افراد مدرسے کے بچے تھے۔
عینی شاہدین نے خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ شمال مشرقی صوبے قندوز میں واقع مدرسے میں پیر کو تقسیمِ اسنادکا جلسہ جاری تھا جس کے دوران وہاں افغان ایئر فورس کے ہیلی کاپٹروں نے بمباری کی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جلسے میں سیکڑوں افراد شریک تھے۔
حملے کا نشانہ بننے والا مدرسہ صوبہ قندوز کے ضلع دشت آرچی میں واقع ہے جس کا بیشتر علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے۔
پیر کو افغان سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے قندوز میں طالبان کے ایک مشتبہ اجتماع پر حملہ کیا ہے جس میں افغان حکام کے بقول طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کا نمائندہ بھی موجود تھا۔
تاہم بعض افغان حکام نے خود بھی اعتراف کیا تھا کہ فضائی حملے میں متعدد عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔
البتہ افغان وزارتِ دفاع حملے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی تاحال تردید کر رہی ہے۔
وزارت کے ترجمان محمد ردمنیش نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں 20 طالبان جنگجو ہلاک ہوئے جن میں طالبان کے 'ریڈ یونٹ' کا ضلعی کمانڈر بھی شامل تھا جو ترجمان کے بقول کوئٹہ شوریٰ کا بھی اہم رکن تھا۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ 'ریڈ یونٹ' طالبان جنگجووں کا کمانڈو یونٹ ہے جب کہ کوئٹہ شوریٰ افغان طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت پر مشتمل کونسل کو کہا جاتا ہے جس کا مرکز پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ہے۔
افغان طالبان نے بھی پیر کو قندوز میں مدرسے پر فضائی حملے کی تصدیق کی تھی لیکن انہوں نے افغان حکومت کا یہ الزام مسترد کیا تھا کہ حملے کے وقت وہاں طالبان کا کوئی اجلاس ہورہا تھا۔
'اے ایف پی' کے مطابق اسے بعض افغان سکیورٹی اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حملے میں کم از کم 59 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر مدرسے میں زیرِ تعلیم بچے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت قندوز کے مرکزی اسپتال میں موجود عبد الخلیل نامی ایک عینی شاہد نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اس نےخود جائے واقعہ پر کم از کم 35 لاشیں دیکھی ہیں۔
عبدالخلیل نے دعویٰ کیا کہ وہ فضائی حملے کے بعد جائے واقعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے افراد میں شامل تھا۔ اس کے بقول حملے کے بعد مدرسہ کسی مذبح کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں ہر جانب خون، انسانی اعضا اور کٹی پھٹی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔
حملے میں زخمی ہونے والوں کو قندوز کے مرکزی اسپتال منتقل کیا گیا ہے جو جائے واقعہ سے 50 کلومیٹر سے زائد مسافت پر واقع ہے۔
ایک طالبان رہنما نے منگل کو 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والا مدرسہ طالبان کے حامی علما کا تھا لیکن وہاں عام لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
کسی نامعلوم مقام سے بذریعہ فون گفتگو کے دوران طالبان رہنما نے دعویٰ کیا کہ حملے کے وقت مدرسے میں جاری تقریب میں دو ہزار کے لگ بھگ لوگ شریک تھے جن میں 750 طلبہ بھی شامل تھے۔
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے اندازے کے مطابق حملے میں 400 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ طالبان عموماً ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
طالبان رہنما نے افغان حکام کے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ حملے کے وقت مدرسے میں طالبان رہنماؤں کا کوئی اجلاس ہورہا تھا۔