عالمی ادارے کے عہدیدار ٹامس اوجیا کنتانا کے برما کی مسلم اکثریتی ریاست راکین آمد کے موقع پر مقامی بدھ بھکشووں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
انسانی حقوق کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے ایک عہدیدار نے برما کے ان مغربی علاقوں کا دورہ کیا ہے جہاں گزشتہ ماہ بودھ باشندوں اور روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے مابین فسادات میں کئی افراد مارے گئے تھے۔
ایک مقامی بودھ بھکشو نے 'وائس آف امریکہ' کی برمی سروس کو بتایا ہے کہ عالمی ادارے کے عہدیدار ٹامس اوجیا کنتانا کے برما کی مسلم اکثریتی ریاست راکین آمد کے موقع پر مقامی بودھ بھکشووں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
یو ارسی را نامی بھکشو کے مطابق مظاہرین اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی 'یو این ایچ سی آر' سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ فسادات میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو امداد دیتے وقت مسلمانوں اور بودھ مت کے ماننے والوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔
برمی ریاست راکین کے بیشتر بدھ باشندے 'یو این ایچ سی آر' پر مسلمانوں کی بے جا حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول عالمی ایجنسی نے ریاست میں کام کرنے والے اپنے بیشتر رضاکار مسلم آبادیوں سے بھرتی کیے ہیں۔
برمی حکام نے عالمی ادارے کے کئی کارکنان کو راکین میں نسلی فسادات بھڑکانے کے شبہ میں حراست میں بھی لے رکھا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ فسادات میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
منگل کو ہونے والا مظاہرہ ریاست کے شہر موانگڈو میں کیا گیا جس میں شریک بھکشو تشدد کا نشانہ بننے والے تمام متاثرہ افراد کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں اور رضاکاروں نے برما کی سیکیورٹی فورسز پر فسادات پھوٹ پڑنے کے بعد علاقے کے روہنگیا مسلمانوں اور دیگر اقلیتی مسلم آبادیوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
تاہم برمی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اس کے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی کاروائیوں میں طاقت کے استعمال سے ہر ممکن طور پر بچنے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ برمی حکومت ملک میں بسنے والے آٹھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور انہیں پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آکر راکین ریاست میں بس جانے والے غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیتی آئی ہے۔
ایک مقامی بودھ بھکشو نے 'وائس آف امریکہ' کی برمی سروس کو بتایا ہے کہ عالمی ادارے کے عہدیدار ٹامس اوجیا کنتانا کے برما کی مسلم اکثریتی ریاست راکین آمد کے موقع پر مقامی بودھ بھکشووں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
یو ارسی را نامی بھکشو کے مطابق مظاہرین اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی 'یو این ایچ سی آر' سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ فسادات میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو امداد دیتے وقت مسلمانوں اور بودھ مت کے ماننے والوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔
برمی ریاست راکین کے بیشتر بدھ باشندے 'یو این ایچ سی آر' پر مسلمانوں کی بے جا حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول عالمی ایجنسی نے ریاست میں کام کرنے والے اپنے بیشتر رضاکار مسلم آبادیوں سے بھرتی کیے ہیں۔
برمی حکام نے عالمی ادارے کے کئی کارکنان کو راکین میں نسلی فسادات بھڑکانے کے شبہ میں حراست میں بھی لے رکھا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ فسادات میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
منگل کو ہونے والا مظاہرہ ریاست کے شہر موانگڈو میں کیا گیا جس میں شریک بھکشو تشدد کا نشانہ بننے والے تمام متاثرہ افراد کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں اور رضاکاروں نے برما کی سیکیورٹی فورسز پر فسادات پھوٹ پڑنے کے بعد علاقے کے روہنگیا مسلمانوں اور دیگر اقلیتی مسلم آبادیوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
تاہم برمی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اس کے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی کاروائیوں میں طاقت کے استعمال سے ہر ممکن طور پر بچنے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ برمی حکومت ملک میں بسنے والے آٹھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور انہیں پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آکر راکین ریاست میں بس جانے والے غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیتی آئی ہے۔