مذاکرات میں شریک امریکی اور روسی وفود ان ممالک کے ناموں کو حتمی شکل دیں گے جنہیں 22 جنوری سے سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والی کانفرنس میں مدعو کیا جائے گا۔
واشنگٹن —
شام کے بحران کے حل کی غرض سے آئندہ ماہ بلائی جانے والی بین الاقوامی کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ ، امریکہ اور روس کے نمائندے بات چیت کے لیے جمعے کو جنیوا میں جمع ہورہے ہیں۔
شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی کی میزبانی میں ہونے والے ان مذاکرات میں شریک امریکی اور روسی وفود ان ممالک کے ناموں کو حتمی شکل دیں گے جنہیں 22 جنوری سے سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والی کانفرنس میں مدعو کیا جائے گا۔
کئی ماہ سے موخر ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد شام میں جاری بحران کے فریقین کو بات چیت کے ذریعے اختلافات کا سیاسی حل نکالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
شام میں ایک با اختیار عبوری حکومت کے قیام پر اتفاقِ رائے کا حصول بھی کانفرنس کے مقاصد میں شامل ہے جو کچھ مدت بعد ملک میں آزادانہ انتخابات کراکے منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپ دے گی۔
مجوزہ کانفرنس کے کئی ماہ سے ملتوی ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فریقین کے درمیان کانفرنس کے شرکا اور ان کے کردار اور اختیارات کے بارے میں سخت اختلافات موجود تھے۔
شام میں مارچ 2011ء سے جاری سیاسی بحران گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران میں مکمل خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا ہے جس میں اب تک عالمی اداروں کے مطابق ایک لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایران کی شرکت پر ابہام برقرار
دریں اثنا ایک امریکی سفارت کار نے کہا ہے کہ شام پر ہونے والی کانفرنس میں ایران کی شرکت ممکن نظر نہیں آتی کیوں کہ تہران حکومت نے اب تک جون 2012ء میں جاری ہونے والے اس اعلامیہ کی توثیق نہیں کی ہے جس میں شام میں عبوری حکومت کے قیام کی سفارش کی گئی تھی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے سینئر سفارت کار کا نام ظاہر کیے بغیر ان سے یہ بیان منسوب کیا ہے کہ امریکی اہلکار لخدار براہیمی اور دیگر ممالک کے وفود کے ساتھ مجوزہ امن مذاکرات میں ایران کی شرکت سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں ۔
سفارت کار کے بقول کانفرنس کے مجوزہ شرکا میں سے ایران وہ واحد ریاست ہے جس کے فوجی اہلکار اور افسران شام میں جاری خانہ جنگی میں بنفس نفیس شریک ہیں جس کے باعث ایران کی شرکت یا عدم شرکت کا معاملہ خاصی منفرد نوعیت اختیار کرگیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا خطے میں واحد سب سے بڑا حمایتی ہے جو شامی باغیوں کی جانب سے اسد حکومت کےخلاف جاری مسلح بغاوت کو دبانے کے لیے ان کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔
شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی کی میزبانی میں ہونے والے ان مذاکرات میں شریک امریکی اور روسی وفود ان ممالک کے ناموں کو حتمی شکل دیں گے جنہیں 22 جنوری سے سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والی کانفرنس میں مدعو کیا جائے گا۔
کئی ماہ سے موخر ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد شام میں جاری بحران کے فریقین کو بات چیت کے ذریعے اختلافات کا سیاسی حل نکالنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
شام میں ایک با اختیار عبوری حکومت کے قیام پر اتفاقِ رائے کا حصول بھی کانفرنس کے مقاصد میں شامل ہے جو کچھ مدت بعد ملک میں آزادانہ انتخابات کراکے منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپ دے گی۔
مجوزہ کانفرنس کے کئی ماہ سے ملتوی ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ فریقین کے درمیان کانفرنس کے شرکا اور ان کے کردار اور اختیارات کے بارے میں سخت اختلافات موجود تھے۔
شام میں مارچ 2011ء سے جاری سیاسی بحران گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران میں مکمل خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا ہے جس میں اب تک عالمی اداروں کے مطابق ایک لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایران کی شرکت پر ابہام برقرار
دریں اثنا ایک امریکی سفارت کار نے کہا ہے کہ شام پر ہونے والی کانفرنس میں ایران کی شرکت ممکن نظر نہیں آتی کیوں کہ تہران حکومت نے اب تک جون 2012ء میں جاری ہونے والے اس اعلامیہ کی توثیق نہیں کی ہے جس میں شام میں عبوری حکومت کے قیام کی سفارش کی گئی تھی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے سینئر سفارت کار کا نام ظاہر کیے بغیر ان سے یہ بیان منسوب کیا ہے کہ امریکی اہلکار لخدار براہیمی اور دیگر ممالک کے وفود کے ساتھ مجوزہ امن مذاکرات میں ایران کی شرکت سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں ۔
سفارت کار کے بقول کانفرنس کے مجوزہ شرکا میں سے ایران وہ واحد ریاست ہے جس کے فوجی اہلکار اور افسران شام میں جاری خانہ جنگی میں بنفس نفیس شریک ہیں جس کے باعث ایران کی شرکت یا عدم شرکت کا معاملہ خاصی منفرد نوعیت اختیار کرگیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا خطے میں واحد سب سے بڑا حمایتی ہے جو شامی باغیوں کی جانب سے اسد حکومت کےخلاف جاری مسلح بغاوت کو دبانے کے لیے ان کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔