اقوامِ متحدہ نے افغانستان کو ملک میں جاری خانہ جنگی کے باعث مسلسل پانچویں سال بچوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے پیر کو مسلح تنازعات میں گھرے بچوں سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ 2019 کے دوران افغانستان میں تین ہزار سے زائد بچے مارے گئے اور لگ بھگ اتنے ہی زخمی ہونے کے بعد ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ تمام بچے افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے دوران بم دھماکوں اور حملوں کا نشانہ بنے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے 1200 سے زائد بچے طالبان کے حملوں کا نشانہ بنے جب کہ لگ بھگ ایک ہزار بچے حکومتی فورسز کی کارروائیوں کے دوران مارے گئے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی بچوں کے لیے نمائندہ خصوصی ورجینیا گامبا نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال چوں کہ افغانستان میں انتخابات تھے، اس لیے حملوں اور تشدد میں اضافے کے باعث بچوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغانستان اب بھی بچوں کے لیے خطرناک ترین ملک ہے، لیکن 2018 کے مقابلے میں گزشتہ سال کم ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ورجینیا گامبا نے کہا کہ افغانستان میں مقامی اور بین الاقوامی فورسز نے بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور اب افغانستان میں امن عمل بھی جاری ہے۔ لہٰذا انہیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں بچوں کی اموات میں نمایاں کمی آئے گی۔
بچوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ممالک کی فہرست میں افغانستان کے بعد شام دوسرے اور یمن تیسرے نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق شام میں گزشتہ سال 1454 بچے مختلف حملوں میں ہلاک اور معذور ہوئے۔ یمن میں 2019 کے دوران 1400 سے زائد بچے زمینی اور فضائی حملوں کا نشانہ بن کر یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال یمن میں اسکولوں پر 20 حملے ہوئے۔ ہلاک ہونے والے 313 بچے حوثی باغیوں کے حملوں کا نشانہ بنے جب کہ 222 بچے سعودی عرب کی اتحادی فورسز کے حملوں کا شکار ہوئے۔
تاہم اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی میں ملوث حکومتوں اور گروہوں کی فہرست میں سعودی عرب کا نام شامل نہیں کیا ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں سخت تنقید کر رہی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سعودی عرب کا نام فہرست میں شامل نہ کرنے سے متعلق کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سعودی اتحاد کا نام 'لِسٹ آف شیم' سے نکال کر اپنے ادارے کے لیے شرمندگی کا سامان پیدا کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے جو بیکر نے کہا کہ اقوامِ متحدہ نے شام میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی فہرست میں حکومتی فورسز اور اس کے مخالف گروہوں کو شامل کیا ہے، لیکن روسی فورسز کو شامل نہیں کیا جو 2015 سے اس تنازع کا حصہ ہیں۔
جو بیکر نے اقوامِ متحدہ کے سربراہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بارہا بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے طاقت ور ملکوں کے نام اپنی فہرست میں شامل نہیں کرتے۔ حالاں کہ اقوامِ متحدہ کے پاس ان کے خلاف ثبوت بھی موجود ہیں۔
خیال رہے کہ رپورٹ میں 62 فریقین کے نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں آٹھ حکومتیں اور 54 مسلح گروہ شامل ہیں۔