اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترس نے کہا ہے کہ کرونا وائرس بحران کے لیے عالمی رہنماؤں کا مشترکہ حکمت عملی اختیار نہ کرنا ایک المیہ ہے اور دنیا کو قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ہر ملک عالمگیر وبا کے خلاف اپنی پالیسی کے مطابق چل رہا ہے۔ مختلف خیالات والے مختلف ممالک کی الگ الگ حکمت عملی نے کرونا وائرس کو پھیلنے کا موقع دیا ہے۔
انتونیو گوترس نے اس بات کو المیہ قرار دیا ہے کہ عالمی رہنما اس بحران سے نمٹنے کے لیے متحد نہیں ہوئے اور انھوں نے تعاون کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہم کرونا وائرس کے خلاف لڑائی میں قیادت سے محروم ہیں۔ انھوں نے اہم ملکوں پر زور دیا کہ وہ مل کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور پھر پوری بین الاقوامی برادری کو ساتھ ملائیں۔
اگرچہ انتونیو گوترس نے کسی رہنما یا ملک کا نام نہیں لیا، لیکن انھوں نے یہ بات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین پر تنقید کے اگلے روز کہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک دن پہلے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے چین کی کوششوں کو ناکافی قرار دیا تھا۔ چین ان کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔
انتونیو گوترس نے کہا کہ کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے بھی امریکہ اور چین دونوں کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں ایسا ممکن ہوگا۔
کرونا وائرس سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہوا تھا۔ صدر ٹرمپ عالمی ادارہ صحت کو بھی غفلت کا الزام دے کر اس کے لیے فنڈنگ روکنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ ہفتے ڈبلیو ایچ او کے اجلاس میں شرکت نہیں کی جس میں شریک ملکوں نے ٹیسٹ، دوا اور ویکسین کے لیے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
سیکریٹری جنرل گوترس نے کہا کہ اس وقت اقتدار اور قیادت کے درمیان رابطہ نہیں ہے۔ ہم قیادت کی بہترین مثالیں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن، ان کا اقتدار سے تعلق نہیں ہے۔ اور جہاں ہم اقتدار کو دیکھتے ہیں وہاں کبھی کبھی ضروری قائدانہ صلاحتیں نہیں ہوتیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ خاص طور پر اس بات پر پریشان ہیں کہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد ناکافی ہے، نہ صرف کرونا وائرس کے محاذ پر بلکہ معاشی اور سماجی منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی۔ انھوں نے بتایا کہ پسماندہ ملکوں کے لیے 2 ارب ڈالر کی اپیل کی گئی تھی، لیکن اس میں سے بمشکل نصف رقم جمع ہوسکی۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ موجودہ بحران کی وجہ سے دنیا کی 8 فیصد آبادی یعنی 50 کروڑ افراد سال کے آخر تک غربت کی سطح سے نیچے جاسکتے ہیں۔