|
سفارت کاروں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جمعے کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لئے فلسطینیوں کی درخواست پر ووٹنگ کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام جس کے بارے میں توقع ہے کہ اسے اسرائیل کا اتحادی امریکہ بلاک کر دے گا کیونکہ اس سے ایک فلسطینی ریاست کو مؤثر طریقے سے تسلیم کر لیاجائے گا۔
سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ 15 رکنی سلامتی کونسل میں جمعے کو ایک مسودہ قرار داد پر دوپہر 3 بجے (1900 GMT) ووٹنگ ہو گی جس میں اقوام متحدہ کی 193 رکنی جنرل اسمبلی کو سفارش کی گئی ہے کہ ,”ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت میں داخل کیا جائے۔”
کونسل کی قرارداد اس صورت میں منظور ہوتی ہے اگر اس کےحق میں نو ووٹ ہوں اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس یا چین کی طرف سے کوئی ویٹو نہ کیا جائے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو کونسل کے 13 ارکان کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، جو امریکہ کو اپنا ویٹو استعمال کرنے پر مجبور کر دے گا۔
قرار داد کا مسودہ پیش کرنے والے کونسل کے رکن ملک، الجزائر نے، درخواست کی تھی کہ اس پر جمعرات کی سہ پہر مشرق وسطیٰ پر سلامتی کونسل کے اس اجلاس کے موقع پر ووٹنگ کی جائے، جس میں متعدد وزراء شرکت کریں گے۔
امریکہ کہہ چکا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اقوام متحدہ میں نہیں بلکہ فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے ۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے بدھ کے روز کہا کہ,”ہمیں ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ سلامتی کونسل میں قرارداد لانے سے ہم لازمی طور پر کسی ایسے مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں سے ہم ایک دو ریاستی حل کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ سکیں گے۔”
مکمل رکنیت کی شرائط
فلسطینی اتھارٹی نے ستمبر 2011 میں اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم اس درخواست پر کبھی بھی سیکیورٹی کونسل میں رائے شماری نہیں ہو سکی ہے۔
فلسطینیوں کی درخواست پر جب معاملہ آگے نہ بڑھا تو انہیں 2012 میں جنرل اسمبلی کی ’غیر رکن ریاست‘ کی حیثیت دے دی گئی۔ اس کے بعد ان کو ووٹ کا حق تو حاصل نہیں ہوا۔ لیکن وہ معاہدوں کا حصہ بن سکتے ہیں اور ان کو اقوامِ متحدہ کے ماتحت اداروں جیسے عالمی ادارۂ صحت یا بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں شمولیت کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔
لیکن اقوام متحدہ کا ایک مکمل رکن بننےکی درخواست کو سلامتی کونسل سے منظوری کے بعد جنرل اسمبلی میں کم از کم دو تہائی ووٹوں سے منظوری درکار ہے۔
SEE ALSO: اقوامِ متحدہ کی مستقل رکنیت؛ فلسطینیوں کی درخواست پر کارروائی شروعنئے اراکین کے داخلے سے متعلق سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی نے، جو سلامتی کونسل کے تمام پندرہ اراکین پر مشتمل تھی، فلسطینی درخواست پر بحث کے لیے گزشتہ ہفتے دو بار اجلاس کیا اور منگل کو اس معاملے پر ایک رپورٹ پر اتفاق کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ “اس مسئلے کے بارے میں کہ آیا درخواست رکنیت کے تمام معیارات پر پورا اترتی ہے... کمیٹی سلامتی کونسل کو متفقہ سفارش کرنے سے قاصر رہی”۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ”مختلف خیالات کا اظہار کیا گیا۔”
دو ریاستی حل
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بہت عرصہ قبل محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر دو ریاستوں کے ساتھ ساتھ رہنے کے تصور کی توثیق کر چکی ہے۔
فلسطینی مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں ایک ریاست چاہتے ہیں، یہ وہ تمام علاقے ہیں جن پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان 1990 کے عشرے کے آغاز میں اوسلو معاہدے پر دستخط کے بعد سے فلسطینی ریاست کے حصول کے لیے بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل فلسطینی تنازع کا دو ریاستی حل ممکن ہو سکتا ہے: بائیڈنفلسطینی اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے ایسے میں دباؤ ڈال رہے ہیں جب غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کو چھ ماہ ہو چکے ہیں اور جب اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کو بڑھا رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جلعاد اردان نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ “جو بھی ایک ایسے وقت میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتا ہے وہ نہ صرف دہشت گردی کو ایک انعام دیتا ہے، بلکہ یک طرفہ اقدامات کی حمایت بھی کرتا ہے جو براہ راست مذاکرات کے طے شدہ اصول سے متصادم ہیں۔”
اقوام متحدہ کی رکنیت ان “امن پسند ریاستوں" کے لیے کھلی ہے جو اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر کی ذمہ داریوں کو قبول کرتی ہیں اور ان کو پورا کرنے کے قابل اور تیار ہوں۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔