اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل کے روز ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں تمام فریق سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تشدد کی کارروائیوں میں اسپتالوں، صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ افراد اور طبی تنصیبات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
قرارداد کی منظوری سے قبل دنیا بھر کے وہ مقامات جہاں لڑائی ہو رہی ہے، وہاں اسپتالوں کو نشانہ بنانے کا ایک مہلک سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ہفتے کے روز شام کے شمالی شہر، حلب میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر حکومتِ شام کے جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹر گن شپس نے تقریباً 30 فضائی حملے کیے، جن میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
برطانیہ میں شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے حقوقِ انسانی کے ادارے، ’سیریئن آبزرویٹری‘ کے مطابق، 22 اپریل سے اب تک شہر پر ہونے والی گولہ باری، راکٹ فائر اور فضائی حملوں کے نتیجے میں تقریباً 250 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 50 افراد اُس وقت دم توڑ گئے جب فضائی حملے میں اسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔
قرارداد کا مسودہ کونسل کے ارکان نیوزی لینڈ، اسپین، مصر، جاپان اور یوراگوے نے تیار کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یہ کافی نہیں کہ سارے ملک محض حملوں کی مذمت کریں، ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسپتالوں اور عملے کے تحفظ کے لیے اقدام کریں اور تشدد کی ان کارروائیوں کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔
بان نے یہ بات منگل کے روز نیویارک میں مسلح تنازع میں صحت عامہ کی سہولیات سے متعلق بریفنگ کے دوران کہی۔ بقول اُن کے، ’’آج، شام کی طبی تنصیبات میں سے تقریباً نصف یا تو بند ہوچکی ہیں یا پھر جُزوی طور پر کام کر رہی ہیں؛ جب کہ لاکھوں شامیوں کو زندگی بچانے کی سہولت دستیاب نہیں‘‘۔
بان کی مون نے کہا کہ گذشتہ برس، اقوام متحدہ نے 34 اسپتالوں کے خلاف 59 حملوں کی تصدیق کی تھی۔
گذشتہ سال جنوری میں، ایک اتحادی فضائی کارروائی کے دوران شیارعہ اسپتال نشانہ بنی، جو طبی تنصیب صوبہٴ سعادہ میں 120000 افراد کو طبی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اسی طرح، یمن میں صحت کی تنصیبات کی تباہی کی اطلاعات جاری ہیں۔ تنازع میں پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں 600 سے زائد طبی تنصیبات بند ہو چکی ہیں، جب کہ رسد میں کمی کی شکایات اور طبی کارکنان کو مشکلات درپیش ہیں۔
بان نے اِن حملوں کو ’’شرمناک اور ناقابلِ معافی‘‘ قرار دیا۔