|
دوحہ _ اقوامِ متحدہ کی میزبانی افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان سے رابطوں کے لیے شروع کیے گئے مذاکراتی عمل کی تیسری کانفرنس پیر کو ختم ہو گئی ہے۔
اس تیسرے دور میں طالبان پہلی بار شریک ہوئے تھے جنہوں نے مذاکرات میں نہ تو افغانستان میں کسی قسم کی اصلاحات کی یقین دہانی کرائی اور نہ ہی وہ بین الاقوامی برادری سے کسی قسم کی مراعات کے حصول میں کامیاب ہو سکے۔
کانفرنس میں لگ بھگ چوبیس ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوبین اور چند بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ان میں سے چند ایک ہی نے طالبان کے وفد سے ملاقات کی۔
اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری روزمیری ڈی کارلوس نے مذاکرات کی سربراہ کی، جن کا دعویٰ ہے کہ طالبان سے مذاکرات تعمیری اور فائدہ مند رہے۔
پیر کو مذاکرات کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں ڈی کارلوس نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ایک بڑے حصے اور افغانستان میں برسرِ اقتدار حکمرانوں کو تفصیل سے مباحثے کا پہلی بار موقع ملا ہے۔
ان کے بقول مذاکرات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے۔ تاہم انہوں نے طالبان حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا جب تک طالبان خواتین کی تعلیم سمیت ان پر عائد دیگر پابندیاں ختم نہیں کر دیتے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک برس قبل ’دوحہ مذاکرات‘ کا آغاز کیا تھا۔
مذاکرات کے حالیہ دور کے شرکا نے روابط سازی کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
SEE ALSO: دوحہ کانفرنس: افغان طالبان کا مغرب سے تعلقات استوار اور خواتین پر پابندیاں نظر انداز کرنے پر زوراقوامِ متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان اس وقت تک بین الاقوامی برادری میں شامل نہیں ہو سکتا یا معاشی اور معاشرتی طور پر اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ آبادی کے نصف حصے کو اس کی صلاحیتوں کے استعمال اور ترقی سے محروم رکھے گا۔
حکام کے مطابق طالبان کے اقتدار کو تسلیم کرنا بین الاقوامی تنظیم کا مینڈیٹ نہیں بلکہ یہ ممالک کے درمیان انفرادی سطح پر ہونے والی بات چیت کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں 16 ممالک کے سفارت خانے فعال ہیں۔ لیکن بین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کے حصول پر پابندیاں قرار دی جار رہی ہیں۔
خواتین کے حقوق کا معاملہ کانفرنس کے مرکزی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری کا کہنا تھا کہ بات چیت میں شرکا کی جانب سے یہ معاملہ بار بار اٹھایا گیا اور افغانستان میں ایک جامع حکومت کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کانفرنس میں کون سے امور زیرِ بحث آئے؟
دو روزہ کانفرنس میں زیادہ توجہ نجی کاروباری سیکٹر کی ترقی اور طالبان کی منشیات کے انسداد کے لیے کارروائیوں میں معاونت پر مرکوز تھی۔
افغانستان سے اگست 2021 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد برسرِ اقتدار طالبان کے وفد کی قیادت ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کی۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان کا پیغام کانفرنس میں شریک تمام ممالک کو پہنچ گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بین الاقوامی برادری کا تعاون درکار ہے۔
ایک مغربی سفارت کار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ افغانستان کے وفد میں شامل ارکان انتہائی قابل تھے جب کہ ان کی ٹیکنیکل امور سے متعلق معلومات بھی متاثر کن تھیں۔
قبل ازیں ذبیح اللہ مجاہد نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں دوحہ مذاکرات میں طالبان کی کامیابی کا دعویٰ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ کانفرنس میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان کے بینکنگ کے نظام اور اقتصادی راستوں پر عائد پابندیاں ختم کی جانی چاہیئں۔
طالبان کے لگ بھگ ایک سو کے قریب رہنماؤں کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد ہیں۔
SEE ALSO: کیا ماسکو طالبان پر سے پابندیاں ہٹانے والا ہے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان بین الاقوامی بینکنگ سسٹم سے منقطع ہے۔ مغربی ممالک کے بینک افغان بینکوں کے ساتھ کاروبار میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
مذاکرات سے واقف ایک مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت سے متعلق کسی بھی ملک نے کوئی نئی پالیسی متعارف نہیں کرائی۔
افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کے برسرِ اقتدار آتے ہی امریکہ نے افغان سینٹرل بینک کے سات ارب ڈالر منجمد کر دیے تھے۔ بائیڈن انتظامیہ نے 2022 میں اس میں سے آدھی رقم سوئٹرزلینڈ میں ایک ٹرسٹ ’افغان عوام کے لیے فنڈ‘ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی تھی۔ باقی بچ جانے والی رقم اب بھی امریکہ میں منجمد ہے۔
چین، روس، ایران اور پاکستان وہ ممالک ہیں جو افغانستان کے منجمد فنڈز کے اجرا کے حامی ہیں۔
پیر کو میڈیا سے گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان کو کسی بڑی پیش رفت کی امید نہیں تھی۔ ان کے بقول یہ کانفرنس ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کا موقع تھا۔
SEE ALSO: طالبان وفد کی دوحہ مذاکرات میں شرکت، کانفرنس میں خواتین شامل نہیںوائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہر ملک افغانستان کا ساتھ دینا چاہتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان کی شرکت یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے انسانی حقوق کے کارکنوں کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے اقوامِ متحدہ کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری روزمیری ڈی کارلوس کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی مشکل، شاید ناممکن انتخاب تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کا مینڈیٹ تھا۔ انہیں کابل میں برسرِ اقتدار حکمرانوں اور افغانستان کے لیے مختلف ممالک کے خصوصی سفارتی نمائندوں کو براہِ راست بات چیت کے لیے اکٹھا کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کے اس عمل میں افسوس کے ساتھ افغانستان کے حکمرانوں کے ہمراہ وہاں کی سول سوسائٹی کے نمائندے میز پر نہیں ہیں۔
افغانستان کی تین نمایاں خواتین نے منگل کو ملاقات کی اقوامِ متحدہ کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔
روز میری ڈی کارلوس کے مطابق وہ ان خواتین کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔
SEE ALSO: پوست کی کاشت کے خلاف طالبان کی ہزاروں کارروائیوں کے باوجود اس کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا؟ان کا کہنا تھا کہ اب ہم ایک ایسے عمل میں شامل ہو چکے ہیں جو ایک طویل عمل ہے۔ اس میں آگے بڑھنا آسان نہیں۔ البتہ پوری کوشش کی جائے گی کہ سب بہتر ہو۔ اس دوران سب کا خوش ہونا ممکن نہیں ہے۔
دوسری جانب جب طالبان کے ترجمان اور وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد سے سوال کیا گیا کہ طالبان دوبارہ مذاکرات میں شامل ہوں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ مذاکرات میں کون شامل ہے اور اس میں کیا ہونا ہے۔
ان کے بقول طالبان ہر اجلاس کو الگ الگ دیکھیں گے اور اس کے ایجنڈے اور اہداف بھی نظر میں رکھے جائیں گے۔
افغانستان سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں مذاکرات کے اگلے راؤنڈ کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔