|
ویب ڈیسک_ اسرائیل کی فوج نے غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس سمیت ایک بڑے علاقے سے فلسطینیوں کے انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے احکامات کے بعد غزہ کے دوسرے بڑے شہر میں ایک بار پھر زمینی کارروائی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اسرائیل کی فوج کے حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں کے ایک بار پھر منظم ہونے کی اطلاعات پر غزہ کے دوسرے علاقوں کی طرح خان یونس میں بھی کارروائی کی جائے گی۔
رواں برس خان یونس میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کے سبب شہر کا بیشتر حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ خان یونس میں اسرائیل کی طویل کارروائی کے دوران زیادہ تر شہری رفح نقل مکانی کر گئے تھے۔ لیکن رفح میں بھی اسرائیلی فورسز کی کارروائی کے بعد بیشتر شہری واپس خان یونس آ گئے تھے۔
اسرائیل اور حماس کا حالیہ تنازع سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر کی سات ماہ بعد رہائی
اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کو سات ماہ بعد رہا کر دیا ہے۔ جنہیں فوج نے بغیر کسی الزام یا فردِ جرم کے سات ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔
ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کے ساتھ ساتھ لگ بھگ چار درجن دیگر قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔
اسرائیل کی فوج نے الزام لگایا تھا کہ شفا اسپتال حماس کے کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تاہم زیرِ حراست تمام طبی حکام نے اسرائیلی فوج کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق محمد ابو سلمیہ اور دیگر قیدیوں کو انتہائی سخت حالات میں زیرِ حراست رکھا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں اس کا اظہار بھی کیا کہ انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ اب بھی قید میں موجود فلسطینی انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
شفا اسپتال کے ڈائریکٹر کی رہائی کے بعد اسرائیل کی فوج کی اس اسپتال میں کی جانے والی کارروائیوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
حماس کے خلاف اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیلی فوج نے دو بار شفا اسپتال میں بڑی کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں کے سبب اسپتال کے بڑے حصے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کی رہائی سے اسرائیل میں بھی سیاسی ہل چل مچ گئی ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں اسے ’سنگین غلطی‘ قرار دیا ہے۔
ان کی رہائی کے بعد اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی وزرا نے بھی ان کی رہائی پر تنقید کی اور قرار دیا کہ حماس کی جانب سے اسپتال کے استعمال میں ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کا کردار موجود تھا۔
اسرائیلی فورسز شاذ و نادر ہی کسی ایسے شخص کو یک طرفہ طور پر رہا کرتی ہیں جن پر عسکریت پسندوں سے روابط کا الزام ہو۔
خان یونس سے انخلا
اسرائیل کی فوج کے پیر کو جاری کیے گئے بیان میں خان یونس کا مشرق میں نصف علاقہ اور جنوب مغربی علاقے کو خالی کرنے کا حکم موجود ہے۔
ان احکامات کے اجرا سے قبل فوج نے کہا تھا کہ خان یونس سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغے گئے ہیں۔
پیر کی رات تک شہریوں کی بڑی تعداد خان یونس سے اس علاقے کی جانب منتقل ہونا شروع ہو گئی تھی جسے سیف زون قرار دیا گیا تھا۔ جن افراد کے پاس کوئی سواری موجود تھی وہ اس میں سوار ہو کر آگے بڑھ رہا تھا جب کہ زیادہ تر شہری پیدل ہی چل رہے تھے۔
خان یونس سے ایک خاتون پہیوں والا سوٹ کیس گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔ اس سوٹ کیس پر ان کی چھوٹی بیٹی بھی سوار تھی۔
کئی افراد ضرورت کا سامان اٹھا کر چل رہے تھے جن میں گدے، کپڑے، دھلائی کے ٹب، پنکھے یا برتن شامل تھے۔ راستے میں چند ایک بڑی بار بردار گاڑیاں بھی سیف زون کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ ان گاڑیوں پر اس قدر فرنیچر لدا ہوا تھا کہ اس میں مزید کچھ رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔
نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون زینب ابو جزار کا کہنا تھا کہ انہیں موبائل فون پر علاقہ خالی کرنے کے احکامات موصول ہوئے تھے۔
’اے پی‘ سے گفتگو میں روتے ہوئے اپنے بچوں کی جانب اشارہ کر کے زینب نے کہا کہ ان بچوں پر نظر ڈالیں یہ کس طرح چل رہے ہیں۔
اسرائیل نے خان یونس سمیت دیگر علاقوں کے لوگوں کو ساحل کے ساتھ واقع المواصی نامی علاقے میں منتقل ہونے کا حکم دیا ہے۔ المواصی کو اسرائیلی فوج سیف زون قرار دے رہی ہے۔
سیف زون کا علاقہ اسرائیل میں کریم شالوم کراسنگ کے قریب واقع ہے۔ اس کراسنگ پوائنٹ سے غزہ میں امدادی سامان بھیجا جاتا رہا ہے۔
المواصی میں گندے پانی کی نکاسی سمیت کسی بھی قسم کی سہولت دستیاب نہیں۔ یہاں فلسطینی عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں جب کہ حالیہ نقل مکانی کے سبب یہ مقام انتہائی گنجان آباد ہوتا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے حکم نامے سے واضح ہو رہا ہے کہ خان یونس پر نیا حملہ جلد کیا جانے والا ہے۔
رواں برس کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے خان یونس میں کئی ماہ تک کارروائی جاری رکھی تھی۔ بعد ازاں افواج کو علاقے سے نکالتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ حماس کے ٹھکانوں کو تباہ اور جنگجوؤں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق اسرائیل کی فوج نے خان یونس کی طرح دیگر علاقوں کے بارے میں اسی طرح کے دعوے کیے تھے۔ تاہم ان علاقوں میں ایک بار پھر حماس کی جنگی صلاحیتیں واضح ہو کر سامنے آئی ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے گزشتہ ہفتے شمالی غزہ کے علاقے شجاعیہ سے بھی فلسطینیوں کے انخلا کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد اس علاقے میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج اس حماس کے جنگجوؤں کے خاتمے کے مرحلے کے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فوج حماس کی باقیات کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھیں گی۔
مکمل محاصرے کے شکار غزہ کی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے جن میں اکثر کو گزشتہ برس اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد کئی بار نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے عائد پابندیوں، مسلسل لڑائی اور امن عامہ کے مخدوش حالات کے سبب غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل انتہائی مشکل ہو چکی ہے جس کے سبب لوگوں کو خوراک کی قلت اور قحط جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تنقید
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیلی فوج کی جانب سے خان یونس سے ایک بار پھر شہریوں کے انخلا کے احکامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نقل مکانی کے نئے احکامات سے واضح ہو رہا ہے کہ غزہ میں عام فلسطینیوں کے لیے کوئی بھی مقام محفوظ نہیں ہے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔