پاکستان میں ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کو زہریلی فضائی آلودگی کا سامنا ہے: اقوامِ متحدہ

لاہور میں آلودگی کا ایک منظر۔ 11 نومبر 2024

  • پنجاب میں شدید فضائی آلودگی سے ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔
  • پیر کے روز لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح، محفوظ عالمی میعار سے تقریباً 100 گنا زیادہ تھی۔
  • فضائی آلودگی اس قدر زیادہ ہے کہ اسے فضا سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
  • فضائی آلودگی کے باعث مختلف بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اسپتال جا رہے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔
  • پنجاب حکومت نے بچوں کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے 17 نومبر تک اسکول بند کر دیے ہیں۔
  • شدید آلودگی کے پیش نظر عوامی مقامات بھی بند کر دیے گئے ہیں اور 50 فی صد ملازموں کو گھروں سے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے گنجان آباد صوبے پنجاب میں انتہائی آلودہ ہوا لوگوں کے لیے شدید خطرات کا باعث بن رہی ہے، جن میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ،یو این چلڈرن فنڈ، یا یونیسیف نے پیر کو ایک بیان میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے صوبائی دارالحکومت لاہور اور کئی دوسرے اضلاع میں عالمی ادارہ صحت کے فضائی معیار کے رہنما اصولوں کو 100 گنا پیچھے چھوڑتے ہوئے فضائی آلودگی کی سطح کے ریکارڈ توڑ دیے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں درجنوں بچوں سمیت سینکڑوں لوگوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے اور آلودگی اتنی شدید ہے کہ خلا سے نظر آ رہی ہے۔

پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے کہا، "چونکہ صوبہ پنجاب میں دھند بدستور برقرار ہے، میں ایسے چھوٹے بچوں کی صحت کے بارے میں سخت فکر مند ہوں جو آلودہ، زہریلی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔"

لاہور میں فضائی آلودگی کا ایک منظر۔ 11 نومبر 2024

انہوں نے فضائی آلودگی کو کم کرنے اور بچوں کی صحت کی حفاظت کے لیے فوری کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دھند کی ریکارڈ توڑنے والی سطح سے پہلے بھی، پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی لگ بھگ 12 فیصد اموات کو فضائی آلودگی سے منسوب کیا گیا تھا۔

فاضل نے کہا، "اس سال کی غیر معمولی دھند کے اثرات کا اندازہ لگانے میں وقت لگے گا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہوا میں آلودگی کی مقدار کو دوگنا اور تین گنا کرنے سے خاص طور پر بچوں اور حاملہ خواتین پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔"

حال ہی میں صوبائی حکومت، خصوصا ً لاہور میں دھواں،کاربن گیسوں کے اخراج اور دھول کا مجموعہ ایک سالانہ چیلنج بن گیا ہے۔ تحقیقی رپورٹس میں گاڑیوں، تعمیراتی دھول اور کھیتوں میں لگنے والی آگ سے نکلنے والے دھوئیں کو اس کی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔

SEE ALSO: لاہور میں 'گرین لاک ڈاؤن'؛ بھارت کے ساتھ 'اسموگ ڈپلومیسی' ممکن ہے؟

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے رہائشی میڈیا کو انٹرویوز میں یہ شکایت کر چکے ہیں کہ دھند آنکھوں میں جلن اور باہر نکلنے پر گلے میں تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ زیادہ تر لوگ دروازوں اور کھڑکیوں کے ذریعے کمروں میں داخل ہونے والے زہریلے ذرات کے نقصان کو محدود کرنے کے لیے اندر ہوا کو صاف کرنے والے آلات، یا ایئر پیوریفائرز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

پنجاب میں حکام نے دھند سے متاثرہ اضلاع میں سکولوں کو نومبر کے وسط تک بند کر دیا ہے تاکہ بچوں کو دھند سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے 17 نومبر تک انہیں پارکوں، چڑیا گھروں، کھیل کے میدانوں اور دوسرے تفریحی مقامات میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت نے لاہور میں ہر ایک کے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا ہے، جب کہ 50 فیصد ملازمین کو لازمی طور پر اس سلسلے میں گھر سے کام کرنا ہو گا جسے شہر میں "گرین لاک ڈاؤن" کہا جاتا ہے۔ ریستورانوں میں کھانوں کو فلٹر کے بغیر باربی کیو کرنے کی ممانعت ہے ، اور شادی ہال لازمی طور پر رات 10 بجے بند کر دیے جاتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر؛ چیلنجز کیا ہیں؟

فاضل نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنے سے ایک ایسے ملک میں تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ بچوں کی پڑھائی میں خلل پڑا ہے جہاں ڈھائی لاکھ سے زیادہ نوعمر بچے پہلے ہی اسکول نہیں جاتے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ صاف توانائی اور ٹرانسپورٹیشن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ زراعت اور صنعت سے کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنا نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات محدود کرنے، بلکہ بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔

پاکسان میں یونیسیف کے سربراہ نے پیر کے روز آذربائیجان میں اقوام متحدہ کی دو ہفتے کی سالانہ کائمیٹ کانفرنس کے آغاز کو ایک "حقیقی موقع" قرار دیا۔

SEE ALSO: رپورٹر ڈائری | دہلی اسموگ: ’آنکھوں میں جلن سینے میں طوفان سا کیوں ہے؟‘

انہوں نے کہا "ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہمارے بچے زہریلی ہوا میں سانس لیں۔ ہم لاکھوں بچوں کی صحت، تعلیم اور بہبود کو متاثر نہیں ہونے دے سکتے۔ اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کی خاطر، ہمیں آج ہی فوری اقدام کرنا چاہیے۔

آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس COP29 میں تقریباً 200 ممالک کے مندوبین کی شرکت متوقع ہے۔ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حل کو فروغ دینے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، خاص طور پر آب وہوا کی تبدیلی کے باعث پیش آنے والی قدرتی آفات کے اس ایک سال کے بعد جس نے ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے ان مطالبات میں اضافہ کر دیا ہے کہ انہیں آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈز دیے جائیں۔