شام کے ایک لاکھ 20 ہزار پناہ گزینوں کو بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، اقوام متحدہ

شام میں پناہ گزینوں کے اکثر کیمپوں ٘میں لوگ مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے انتباہ کیا ہے کہ ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ وہ افراد جو جنگ سے اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر شمالی شام جا چکے ہیں، وہ پناہ گزین کیمپوں میں اپنی بقا کے لئے کئی ہفتوں سے ان موسلا دھار بارشوں اور تیز ہواوں کے جھکڑوں کا سامنا کر رہے ہیں جنہوں نے ان کیمپوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق امور کے اقوام متحدہ کےکو آرڈی نیشن آفس او سی ایچ اے نے اس صورت حال کو بحرانی صورت حال کو بحرانی قرار دیا ہے۔ کوآرڈی نیشن دفتر کا کہنا ہے کہ انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے اس کے اہل کار کیچڑ اور ملبے سے اٹ پٹ سڑکوں کو دوبارہ کھول کر ہنگامی امداد کو بحران کے شکار افراد تک پہنچانے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کے خوراک کے ذخیرے اور گھریلو ساز و سامان اور ملکیت کی دوسری اشیا سیلابی ریلوں میں بہہ گئی ہیں جب کہ پینے اور عام استعمال کے پانی کی فراہمی میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ علاقے میں درجہ حرارت کافی نیچے تک گر گیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ کووڈ19 ویکسین کے حصول پر جھگڑنے والے امیر ملکوں کو دنیا کے ان حصوں کی صورتِ حال کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جہاں غربت کا عالم ہے اور یہ کہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں یہ عالمی وبا کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔

عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی امور کے ایک اعلیٰ ماہر مائیک رائن کی اس بریفنگ میں پاکستان کی ایک نرس اور یوگنڈا کی ایک مڈوائف نے بھی شرکت کی۔ رائن نے کہا کہ لوگوں کو ان جیسے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹتدروس گیبری ایسس نے کہا کہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی تباہ کن اخلاقی ناکامی ہو گی۔