اقوامِ متحدہ کے پروگرام برائے ترقی (یو این ڈی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان کا امیر ترین طبقہ ملکی آمدنی کے 50 فی صد پر کنٹرول رکھتا ہے جب کہ ملک کے غریب ترین طبقے کے حصے میں ملکی آمدنی کا صرف سات فی صد آتا ہے۔
منگل کو جاری کی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کے غریب ترین طبقے میں انسانی ترقی کی شرح بہت کم ہے جب کہ امیر ترین طبقے میں یہ بہت زیادہ ہے جس سے غریب اور امیر کے درمیان طبقاتی فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
البتہ، پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ عدم مساوات کا مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک کا ہی نہیں بلکہ امیر ممالک کا بھی ہے۔
رپورٹ شائع ہونے کے بعد منگل کو اپنے ردِعمل میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ چاہے وہ غریب ممالک ہوں یا امیر، وہاں رہنے والا غریب طبقہ مزید غریب ہو رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس کی اہم وجہ غریب ممالک سے امیر ممالک میں دولت کی غیر قانونی منتقلی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی پاکستان میں نمائندہ آلیانا نکولیتا کے بقول پاکستان میں عدم مساوات صرف آمدنی اور دولت تک ہی محدود نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں امیر کی دنیا الگ اور غریب کی دنیا الگ ہے۔
اُن کے بقول خواندگی کی سطح ہو یا صحت کے ثمرات، یا پھر رہن سہن کے معیارات، انتہائی امیر اور انتہائی غریب الگ الگ دنیا کے باسی لگتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں عدم مساوات کو بنانے اور تقویت دینے کے تین اہم محرکات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جن میں طاقت، لوگ اور حکومتی پالیسیاں شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے اہم ترین نکات کیا ہیں؟
*رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں، مختلف علاقوں، دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان بے پناہ عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ عدم مساوات ملک کی آبادی کے پسماندہ اور غریب طبقات جیسا کہ بچوں، نوجوانوں، مزدوروں اور خواتین میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔
*پاکستان میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات بے حد زیادہ ہے۔
*پاکستان میں صوبوں کی سطح پر آمدنی میں عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔
*پاکستان نے بچوں کو محنت و مشقت سے روکنے اور صنفی ترقی میں بُری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
*طاقت ور طبقات خامیوں اور پالیسیوں کو اپنے فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
*طاقت کے استعمال سے ملک میں دولت اور مواقع کی غیر منصفانہ تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔
*پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقہ ہے۔
*پاکستان میں جاگیردار طبقے کے پاس دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ مراعات ہیں۔
*ٹیکس پر چھوٹ، کم قیمتیں، زمین اور سرمائے تک ترجیحی بنیادوں پر رسائی سے عام طور پر کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار طبقہ، انتہائی زیادہ آمدنی رکھنے والے لوگ، بڑے تاجر، سرکاری ادارے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور برآمدکنندگان فائدہ اٹھاتے ہیں۔
*ایسے طبقات کو صرف سال 2017-18 میں حاصل مراعات کی قدر 2 ہزار 660 ارب روپے تھی جو ملک کی مجموعی آمدن کا 7 فی صد بنتی ہے۔
*پاکستان میں مزدور، مہاجرین، خواجہ سرا اور خصوصی افراد حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی سہولیات پر سے سب سے کم مطمئن ہیں۔
*کرونا وبا کی وجہ سے جون 2020 تک ملک میں 50 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔
*کرونا کے اثرات کی وجہ سے سال 2021 کے اختتام تک دو کروڑ 80 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔
*بلوچستان انسانی ترقی کی راہ میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔
عدم مساوات ختم کرنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں عدم مساوات کے خاتمے کے لیے حکومتی نظام کو مؤثر کرنے، عدالتی نظام کی بہتری کے علاوہ ٹیکس اصلاحات پر کام کرنا ہو گا۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ سبسڈیز یعنی مراعات کا خاتمہ، قیمتوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی اور زمین اور سرمائے تک مساوی رسائی کو بھی ممکن بنانا ہو گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مراعات کے خاتمے سے جو فنڈز اکھٹے کیے جائیں گے انہیں ملک کے پسماندہ ترین طبقات کے لیے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ کام صحت اور تعلیم کے میدانوں میں اخراجات بڑھا کر اور سماجی تحفظ کے "احساس" جیسے پروگرام کو مؤثر اور ٹھیک بنا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
'اشرافیہ' کی اجارہ داری ختم کرنا ناگزیر
رپورٹ کے مصنف اور ماہرِ اقتصادیات اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے لیے پاکستانی اشرافیہ جو ملک کے بیشتر وسائل پر کنٹرول رکھتی ہے اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
اُن کے بقول اس مقصد کے لیے قوانین میں بہت سی ترامیم ناگزیر ہو چکی ہیں جن میں ٹیکس نظام، پرائنسگ پالیسی اور زمینوں کی خرید و فروخت اور ان تک رسائی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے مزدور طبقے کی حالت بے حد خراب ہے۔ ان کو بہتر بنانے کے لیے کم سے کم تنخواہوں کے قانون کو بدلنا پڑے گا جب کہ ٹریڈ یونینز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ان کے خیال میں دنیا بھر میں پاکستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق صورتِ حال بے حد خراب ہے۔ اب انہیں برابر مواقع فراہم کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اگر یہ تین بڑے اقدامات کیے جائیں تو پاکستان انسانی ترقی کی فہرست میں اوپر جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایک زمیندار کے پاس چار، چار سو ایکڑ انتہائی زرخیز زمینیں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں لینڈ ریفارمز کی جائیں تاکہ ہمارے چھوٹے کسانوں کو بھی مراعات دی جائیں۔
پاکستان انسانی ترقی میں دنیا میں کہاں کھڑا ہے؟
واضح رہے کہ پاکستان اس وقت دنیا بھر انسانی ترقی میں189 ممالک کی فہرست میں 159ویں نمبر پر ہے۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان سے پیچھے صرف افغانستان ہے۔ 2020 کے اختتام پر سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس فہرست میں ایک سال کے دوران مزید دو پوائنٹس نیچے آیا ہے۔
'لوگوں کو خطِ غربت سے نکالنا حکومت کی اولین ترجیح ہے'
وزیرِ اعظم عمران خان نے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر خطاب میں کہا کہ لوگوں کو غربت سے نکالنا ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران ان کی حکومت نے کم و بیش انہی چیزوں پر بات کی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کی حکومت پہلی حکومت ہے جس نے اجارہ داری رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ اس کے لیے ہم نے مسابقتی کمیشن کو مضبوط کیا جس نے چینی مافیا کے خلاف جو سیاسی تعلقات رکھتی ہیں کے خلاف کارروائی کی۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں انسانی ترقی کی تیز رفتار پر انہیں خوشی ہوئی ہے جب کہ کرونا وبا کے دوران احساس پروگرام شروع کرنا بھی اُن کی حکومت کا بڑا کارنامہ تھا۔
اُن کے بقول اس پروگرام کے تحت بلا امتیاز لوگوں میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی سفارشات کا تفصیل سے مطالعہ کر کے یہ دیکھیں گے کہ حکومت کیسے اپنے کمزور ترین طبقات کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔