امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے اسلام امن اور اعلیٰ انسانی اقدار کا مذہب ہے، جس میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیائے اسلام مل کر تباہی و بربادی کے اس شیطانی نظریے کو مسترد کردے‘۔
بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما ہونے اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے بروقت، مؤثر اور مستقل تعاون و انتظام جاری رکھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تشدد پر مبنی انتہا پسندی ’ایک سرطان ہے‘، جس کا مشترکہ کوششوں سے ہی مقابلہ کیا جانا چاہیئے۔۔۔جو طریقہٴ کار، بقول اُن کے، اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک اہم جزو ہے۔
صدر اوباما نے مسلمان نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ ’تعلیم پر مکمل دھیان دیں اور بہتر پیشہ ورانہ صلاحیتیں پروان چڑھائیں، جن سے ہی دنیا ترقی و خوش حالی سے ہمکنار ہوگی‘۔
بقول اُن کے، بین الاقوامی قوانین و ضابطوں کا مؤثر نفاذ تمام ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔۔۔ اور، یہ چھوٹے بڑے ملک کا سوال نہیں۔
امریکی صدر نے عراق و شام میں دولت اسلامیہ کی تشدد پر مبنی انتہا پسندی کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ مشرق وسطیٰ کے کئی مسلمان ملکوں کے تعاون و اشتراک سے داعش کے تباہ کُن حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا جارہا ہے، جس میں اولیت اُن شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنے، حربی طور پر اُسے کمزور کرنے اور بالآخر اسے نیست و نابود کرنے پر مرکوز رہے گی۔
اُنھوں نے تاریخی حوالوں سے اس بات کو واضح کیا کہ دہشت گردی دہشت جمانے کا کوئی نیا حربہ نہیں۔ لیکن، بقول اُن کے، گذشتہ کچھ عرصے سے یہ سرطان مسلمان ملکوں میں تیزی سے پھیلا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ موجودہ صدی میں، دہشت گردوں کی ایک تباہ کُن نسل نے سر اٹھایا ہے، جس نے، بقول اُن کے، ’دنیا کے ایک عظیم مذہب کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘۔
’دہشت گردوں کی یہ قسم اس لیے زیادہ ملک و خطرناک ہے کہ اس لیے کہ چھوٹا سا گروہ بھی بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ اُسے تیکنالوجی تک دسترس حاصل ہے۔‘
’پھر یہ کہ تشدد پر مبنی یہ انتہا پسند عجیب قسم کے نصب العین پر عمل پیرا ہیں، جس میں اُن کے حامی قابل احترام جب کہ باقی کافر ہیں، جن بے گناہوں کو مارنا عین ثواب گردانہ جاتا ہے، جس کے لیے، وہ اپنی ہی برادری میں سے مخالف کو تباہ و برباد کرنے میں دیر نہیں لگاتے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ خدا دہشت گردی کو نہیں بخش سکتا۔ اور تشدد پر مبنی انتہا پسندی کسی تکلیف کا مداوا نہیں بن سکتی۔ ایسے شیطانی خیالات کے حامل گروہ یا گروہوں کے ساتھ کسی قسم کی دلیل بازی یا مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
بقول اُن کے، یہ قاتل صرف و صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ اس لیے، امریکہ وسیع تر اتحاد کے ساتھ مل کر ہلاکت خیزی کے اس نیٹ ورک کو نیست و نابود کرنے کا عزم کر چکا ہے اور اِسی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
صدر نے کہا کہ داعش نے عراق و شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے، جس کے حربوں سے مذہبی اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، نہ معصوم بچے یا بے گناہ خواتین اس بربادی سے بچ سکی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ داعش قتل عام میں ملوث رہا ہے، جس کے شواہد سر قلم کرنے کی وارداتیں اور اجتماعی قبریں ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کو کسی ملک کی سرزمین پر قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں، لیکن امریکہ ایسے نیٹ ورکس کو برداشت نہیں کر سکتا جن کا وجود امریکہ، دنیا یا علاقے کے لیے خطرے کا باعث ہو۔
شام کے بارے میں، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ حزب مخالف کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرے گا تاکہ داعش کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جاسکے۔
بقول اُن کے، ’اب وقت آگیا ہے کہ اقوام عالم، خصوصی طور پر مسلمان برادریاں کھل کر، مؤثر طریقے سے اور مستقل بنیادوں پر القاعدہ اور داعش کے نظریے کو یکسر مسترد کردے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ عظیم مذہبوں سے یہ تقاضا ضرور کیا جاتا ہے کہ جدید اور کثیر الثقافتی اور آفاقی عقائد کا احترام کیا جائے۔ ’ یہ نہیں ہوسکتا کہ کہیں بھی، بچوں کو دوسروں سے نفرت کا درس دیا جائے۔ ایسے خود ساختہ عالم دین کو برداشت نہیں کیا جاسکتا جو یہ کہے کہ کسی بے گناہ کو اس لیے نقصان پہنچایا جائے کہ وہ یہودی، مسیحی یا مسلمان ہے۔‘
صدر نے کہا وہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی کے ثقافتی لڑائی کے تصور کو درست نہیں سمجھتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کرہٴ ارض کی مہذب دنیا ایک نئے میثاق تشکیل دے جس میں لڑائی سے اجتناب کا کہا جائے، جس کا سب سے بنیادی وجہ تشدد پر مبنی انتہا پسندی کا نظریہ ہے جو نوجوان نسل کے ذہن کو پراگندہ کر رہا ہے۔
اس ضمن میں، اُنھوں نے خود کش بمبار حملوں کا ذکر کیا، اور کہا کہ نوجوانوں کا ذہن پروپیگنڈا سے متاثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ انٹرنیٹ اور سماجی میڈیا تک کا بھی استعمال کرتے ہیں،اور غیر ملکوں میں جاکر لڑنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ بقول اُن کے، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُنھیں ایک متبادل نصب العین دیا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندوں کی مالی یا وسائل کی مدد سے پشت پناہی، کسی طور پر جائز قرار نہیں دی جاسکتی۔
بقول اُن کے، داعش ہو، یا القاعدہ، یا بوکو حرام۔۔۔ یہ سبھی ایک ہی نظرئے کی پیداوار ہیں، جسے آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے، مذمت کی ضرورت ہے، اس کا مقابلہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے حالیہ دنوں کے دوران، برطانیہ، سعودی عرب اور جمہوریہ وسط افریقہ کے علما، زعما و اماموں کی طرف سے کئی فتوے دیے جانے کا ذکر کیا، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں، اور جو لوگ ایسا رویہ اور انداز اپناتے ہیں، دین اسلام اُنھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایک قرار داد منظور کرنے والی ہے جس میں تشدد پر مبنی انتہا پسندی کے انسداد کے سلسلے میں رکن ممالک کی ذمہ داری کا اعادہ کیا جائے گا۔