امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹ سے پاکستان کا نام خارج کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ کی مؤثر روک تھام نہ کرنے والے ملکوں کے نام درج کیے جاتے ہیں، تاہم پاکستان کی بہتر کارکردگی کے باعث اس کا نام فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس ضمن میں عملی اقدامات کیے جن کی وجہ سے پاکستان کو اس لسٹ سے نکالا گیا، اس لسٹ سے نکالے جانے کا تعلق پاک امریکہ تعلقات سے نہیں بلکہ امریکی ادارے دوطرفہ تعلقات کے بجائے عملی اقدامات کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا ریکارڈ بہتر نہ ہونے پر 2018میں واچ لسٹ میں رکھا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق نامناسب اقدامات کے باعث پاکستان کو مسلسل دو سال تک درجہ دوم کی واچ لسٹ میں رکھا گیا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی اس رپورٹ میں پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسدادِ انسانی اسمگلنگ کے اقدامات پر کرونا وائرس کی وبا کے ممکنہ اثرات کے باوجود حکومتِ پاکستان کی کارکردگی مجموعی طور پر بہترین رہی جس پر پاکستان کو درجہ کی واچ لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے پریوینشن ٹریفکنگ ان پرسنز ایکٹ پر عمل درآمد کیا اور اس ضمن میں مقدمات، تفتیش اور سماعت سمیت سزاؤں میں اضافہ کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے انسانی اسمگلنگ سے متاثر ہونے والوں کو تحفظ فراہم کیا اوراسٹیک ہولڈرز کو تربیت دی، تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور موجودہ کاوشیں دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان یہ اہداف بھی حاصل کرلے گا اور انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے کم سے کم معیار تک پہنچ جائے گا۔
رپورٹ میں سندھ میں مقامی طاقت ور افراد کے بھٹوں اور کھیتوں میں جبری مشقت کروانے میں ملوث ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے زور دیا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان وفاقی اور صوبائی سطح پر جبری مشقت سمیت تمام قسم کی اسمگلنگ کے مقدمات اور سزاؤں میں اضافہ کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں ایسے غیر ریاستی مسلح گروہوں کی حمایت کو سختی سے روکنے کی تجویز دی گئی جو نابالغ لڑکوں کی ذہن سازی کرکے انہیں اپنے غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
معاشی صورتِ حال کے باعث انسانی اسمگلنگ میں اضافے کا خدشہ
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کام کرنے والے معروف وکیل ضیا اعوان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو واچ لسٹ سے نکالا گیا لیکن ٹئیر ٹو میں آنے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو مکمل طور پر اس فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ میں مشکل معاشی صورتِ حال کے باعث امکان ہے کہ بہت سے لوگ اس ملک سے نکلنے کی کوشش کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے بہت سے لوگ پاکستان کی سرزمین استعمال کرکے بیرون ملک جانے کی کوشش کریں گے لہذا پاکستان کو اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ضیا اعوان کا کہنا تھا کہ سمندری راستوں کے علاوہ زمینی راستوں سے اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں بہت بڑے بڑے مافیا سرگرم ہیں جنہیں روکنے کے لیے پاکستانیوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے نام نکالنا ایک اہم اقدام ہے لیکن ابھی اس میں پاکستان کو مزید اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ایک ذرخیز علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں سے زیادہ تر افراد معاشی ضروریات کی وجہ سے بیرون ملک جاتے ہیں ، اگر ملک کی معاشی صورتِ حال بہتر ہوگی تو انسانی اسمگلنگ کے رجحان میں بھی کمی ہو گی۔
سابق سفار ت کار عاقل ندیم نے وائس آف امریکہ سے اس رپورٹ کے تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واچ لسٹ سے پاکستان کے نکلنے کو پاک امریکہ تعلقات میں بہتری نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اُن کے بقول امریکہ کے مختلف ادارے کسی بھی دباؤ یا ملکوں کے تعلقات سے الگ ہوکر اپنا کام کرتے ہیں اور اپنی رپورٹ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس لسٹ سے نکالا گیا کیونکہ پاکستان نے کارکردگی دکھائی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان نے امیگریشن کے حوالے سے سخت قانون سازی کی، اس میں بعض افسران کو سزائیں بھی دی گئیں جبکہ بڑے پیمانے پر وفاقی تحقیققاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں تبدیلی آئی۔